لکی مروت میں پولیو کے بڑھتے کیسز، ذمہ دار کون؟
[ناہید جہانگیر]
‘لوگ ہمارے ہاتھ سے بچوں کو پولیو قطرے پلانا تو دور کی بات بلکہ الٹا ہمیں گھروں سے زبردستی نکال دیتے ہیں’۔
یہ انکشاف لکی مروت کی لیڈی ہیلتھ ورکر غنم جانہ نے ٹی این این کے ساتھ بات کرتے ہوئے کیا۔ غنم جانہ 1300 آبادی رکھنے والے رقبہ پر مشتمل علاقہ میں پچھلے دس سال سے لیڈی ہیلھ ورکر کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہے لیکن ان کا شکوہ ہے کہ یہاں کی کچھ آبادی پولیو قطروں سمیت ان کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
غنم جانہ نے کہا کہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے یہاں کے زیادہ تر لوگ ان کے ساتھ بہت عزت اور احترام کے ساتھ بھی پیش آتے ہیں لیکن انکاری والدین کی وجہ سے پولیو وائرس علاقے سے ختم نہیں ہو پارہا۔
2019 میں ملک بھر میں سامنے آنے والے مجموعی پولیو کیسز140 ہیں جن میں سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخوا میں97 کیسز رپورٹ ہوئیں۔ خیبرپختونخوا میں پھر سب سے زیادہ کیسز لکی مروت سے سامنے آئے جن کی تعداد 32 ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر ضلع بنوں میں 26 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
رواں برس بھی ملک میں سامنے آنے والے پولیو کیسز میں لکی مروت ٹاپ پر ہے۔
غنم جانہ اور پولیو تدارک پروگرام سے وابستہ افسران کے مطابق لکی مروت اور ملحقہ علاقہ جات میں پولیو وائرس کے حوالے سے اگر دنیا کے بدترین علاقوں کے طور پر جانے جاتے ہیں تو اسکے ذمہ دار انکاری والدین ہیں۔
لکی مروت میں ہرمہینے پانچ سال کم 1 لاکھ 94 ہزارتک بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پولیو تدارک پروگرام کے عہدیداروں کے مطابق ہرپولیو مہم میں تقریبا 20 ہزارتک والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیتے ہیں جن میں پھر 14 ہزارکو علاقے کے علماء صاحبان، ڈپٹی کمشنر یا پٹواری کے زریعے کسی نہ کسی طریقے سے قطروں کے لئے راضی تو کیا جاتا ہے لیکن چھ ہزار والدین اب بھی ایسے ہیں جو پچھلے کئی برسوں سے کسی بھی صورت بچوں کو یہ قطرے پلانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
لکی مروت یا دوسرے اضلاع میں لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے کیوں نہیں پلاتے اس حوالے سے لکی مروت کے رہائشی برکت اللہ جو 4 بچوں کے والد ہیں جن میں 2 کی عمر 5 سال سے کم ہے، وہ کہتے ہے کہ انکے علاقے میں اور بھی جان لیوا اور مہلک بیماریاں ہیں جن سے لوگ مر رہے ہیں، حکومت کو انکی کوئی فکر نہیں ہے لیکن پولیو کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
برکت اللہ کا کہنا ہے کہ علماء کا کردار مذہب اور سیاست کی حد تک تو مانتا ہے لیکن پولیو کے حوالے سے وہ ان پر یقین نہیں کرتا۔
برکت اللہ نے اپنے انکار کی کوئی ٹھوس وجوہات تو بیان نہیں کی لیکن لکی مروت سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی غلام اکبر نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انکاری والدین اس سارے پولیو تدارک پروگرام کو مغربی دنیا کی چال سمجھتے ہیں۔
‘ان کا ماننا ہے کہ مغرب ان قطروں کے ذریعے ہماری نسل کشی کر رہا ہے،اگر وہ اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلاتے ہیں تو پھر مستقبل میں ایسا وقت آئے گا کہ جس نے پولیو قطرے پئے ہونگے اس کے بچے پیدا نہیں ہونگے، اور اگر کسی کے ہونگے بھی تو وہ ساری لڑکیاں پیدا ہونگی اور مسلمانوں میں نر اولاد ختم ہوجائے گی’۔ غلام اکبر نے انکاری والدین کا خیال بیان کیا۔
غلام اکبر نے مزید بتایا کہ پولیو قطروں سے انکاری والدین دو قسم کے ہیں، ایک وہ جو مذہبی بنیادوں پر انکار کرتے ہیں اور دوسرے کو ڈیمانڈ بیس کہا جاتا ہے۔
وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈیمانڈ بیس وہ ہوتے ہیں جو اپنے قطروں کو اپنے کسی مطالبہ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ جیسے کہ آج کل زیادہ تر پورے کا پورا گاوں یکاکرلیتا ہے کہ اپنے بچوں کو اس وقت تک پولیو سے بچاو کے قطرے نہیں پلائیں گے جب تک حکومت ان کے لئے بجلی کا نظام ٹھیک نہیں کرتی یا سڑک نہیں بناتی اور یا ایسا کوئی دوسرا مطالبہ۔
غلام اکبر نے کہا کہ ڈیمانڈ بیس انکاری لوگوں سے نمٹنا پھر ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کی ذمہ داری ہوتی ہے جو یا تو ان کو مطالبے کو پورا کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے انہیں قطروں کے لئے راضی کرلیتی ہے اور یا ڈرا دھمکا کر۔ صحافی کا کہنا تھا کہ ایسے میں انفرادی انکاری کو راضی کرنے کے لئے پٹواری کی مدد بھی لی جاتی ہے۔
مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ پولیو پروگرام پر لوگوں کے شکوک و شبہات دور کرنے اور مذہبی بنیادوں پر قطروں کے انکاری والدین کو راضی کرنے کے لئے اس پروگرام میں مقامی علماءصاحبان کی خدمات حاصل کی گئی ہے جس کے لئے انہیں باقاعدہ تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔
خیبرپختونخوا پولیو تدارک پروگرام سے وابستہ ایک سینئر عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر صحافی کی بات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ اس مقصد کے لئے پورے صوبے ضلعوں اور یونین کونسلز کی سطح پر 500 علماء بھرتی کئےگئے ہیں جو نہ صرف انکاری والدین کو راضی کرنے میں پولیو ٹیموں کی مدد کرتے ہیں بلکہ ان قطروں کی اہمیت اور اس کے حوالے سے پھیلے غلط تاثر کو ختم کرنے کے لئے خطبے بھی دیتے ہیں۔
عہدیدار نے ان علماء کی تنخواہوں کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کیا ہے لیکن غلام اکبر نے دعویٰ کیا ہے کہ ان میں ضلعی امیر کو 80 ہزار اور یونین کونسل کے سطح پر علماء کو 15 ہزار تک تنخواہیں دی جاتی ہے۔
ان علماء میں لکی مروت کے مولانا حافظ منہاج الدین بھی شامل ہے۔ مولانا منہاج الدین نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے کہا کہ پولیو مہم کے دنوں میں مسجدوں میں اعلانات کرتے ہیں کہ فلاں دن اپنے بچوں کو ضرور پولیو ویکسین یا قطرے پلائیں۔اسکے علاوہ اپنی خطبات کے علاوہ انکاری والدین کو مولانا طارق جمیل اور مولانا سمیع الحق کے وہ بیانات بھی سناتے ہیں جن میں پولیو کے حوالہ سے انکا بیان ہوتا ہے۔
دوسری جانب مقامی صحافی نے بعض علماء پر الزام لگایا ہے کہ تنخواہیں لینے کے باوجود بھی ایمانداری سے کام نہیں کرتے اور وہ خود ایسے کئی واقعات کا چشم دید گواہ ہے’انکاری والدین کو راضی کرنے کے لئے جب یہ مولوی یا علماء جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ڈی سی بھی ہوتا ہے تو یہ انکاری لوگوں کو کہہ دیتے ہیں کہ آج چونکہ وہ خود اور ڈی سی صاحب بھی ان کے در پر آئیں ہیں تو مہربانی کرکے بچوں کو صرف ایک دفعہ یہ قطرے پلادیں پھر بے شک کبھی نہ پھیلانا’۔
غلام اکبر کے مطابق لکی مروت میں انکاری والدین کی وجہ سے پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کے ذمہ دار متعلقہ افسران بھی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ بعض اوقات یہ افسران والدین کے انکار کو سنجیدہ نہیں لیتے اور یا انکاری لوگ اتنے بااثر ہوتے ہیں کہ ذمہ دار افسران ان کو رپورٹ بھی نہیں کرتے۔
اس حوالے سے صحافی نے خود ایک ایسے خاندان کو جاننے کا دعویٰ کیا ہے جو قطروں سے مسلسل انکاری ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اور پروگرام کے مقامی عہدیدار نہ صرف خود ان کو آگے افسران کو رپورٹ کرنے سے کتراتے ہیں بلکہ پولیو ورکرز کو یہ کہہ کر انکو رپورٹ کرنے سے منع کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی دشمنی نہیں مول سکتیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایسی صورتحال میں پھر جعلی چاکنگ کی جاتی ہے۔
پولیو کے عام ورکرز چونکہ پولیو قطروں کے ساتھ ساتھ مقامی بی ایچ یوز اور آر ایچ سیز وغیرہ میں بچوں اور خواتین کے صحت کی دوسری بنیادی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں اس لئے غنم جانہ فکر مند ہے کہ پولیو کے حوالے سے پھیلے غلط تاثر کی وجہ سے انکاری لوگ ان کے ہاتھ سے دوسری سہولیات لینے سے بھی کتراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اکثر انکاری لوگ اپنی خواتین اور بچوں کو بنیادی صحت مرکز بھی نہیں آنے دیتے جس کی وجہ سے حاملہ خواتین یا شیرخوار بچوں کی مائیں اور بچے ان دوسرے خطرناک بیماریوں کی ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں جو ان کے لئے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔