خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘بچے ایک منٹ کے لیے نظروں سے اوجھل ہوجائیں تو خوف طاری ہوجاتا ہے’

 

خالدہ نیاز

ریپ کیسز: والدین کس کرب سے گزر رہے ہیں؟

‘بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی واقعات بڑھنے کی وجہ سے اکثر والدین کے ذہنوں پر برے اثرات پڑے ہیں، اب والدین کو تب تک سکون نہیں ملتا جب تک ان کے بچے سکول، مدرسے اور ٹیوشن سے صحیح سلامت واپس گھر نہیں پہنچتے’

یہ ہے پشاور کے علاقے شیرکرہ سے تعلق رکھنے والے اسلام الدین کے خیالات جو خود ایک استاد ہے اور ایک والد بھی ہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کہ تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے خوشحال زندگی گزاریں اور آزادانہ طور پرنقل و حمل کرسکیں لیکن آجکل بچوں کے ساتھ جو جنسی زیادتی کے واقعات ہورہے ہیں اور بعض کیسز میں تو ان کو مار بھی دیا جاتا ہے تو ایسے میں والدین بچوں کی حفاظت سے حوالے سے خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں کیونکہ اب والدین بچوں کو کسی بھی جگہ اکیلے بھیجنے سے کتراتے ہیں اور یہاں تک کہ سکول لانے اور لے جانے کا کام بھی خود سرانجام دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ‘ ہمارے ساتھ جو بچے پڑھنے آتے ہیں ان کے حوالے سے بھی ہمیں پریشانی ہوتی ہے کہ وہ خیریت سے گھر پہنچ گئے کہ نہیں اور اس کے علاوہ بچوں کے والدین بھی ہمیں فون کرکے ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔’

اسلام الدین کے مطابق جہاں ان واقعات نے والدین کے ذہنوں پر خوف طاری کیا ہے وہیں ان پرمعاشی دباؤ بھی بڑھ گیا ہے، مثلا اب والدین بچوں کو سکول لانے اور لے جانے کے لیے ضرور کسی سواری کا بندوبست کرتے ہیں چاہے سکول قریب ہی کیوں نہ ہو۔

خیال رہے کہ چند روز قبل نوشہرہ کے علاقے کاکاصاحب میں سات سالہ بچی عوض نور کے قتل کے بعد ایک مرتبہ والدین میں تشویش بڑھ گئی ہے اور بچوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک بحث چل پڑی ہے۔ عوض قتل کیس کے ملزمان کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے تاہم عوض کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے یا نہیں اس حوالے سے ابھی رپورٹ آنا باقی ہے۔ واضح رہے کہ 2018 میں قصور کی زینب کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا جس کے بعد سے لوگوں نے اس اہم مسئلے پرکھل کربات کرنا شروع کی ہے۔

جنسی زیادتی کے واقعات بڑھنے کی وجہ سے بچوں کی مائیں بھی فکرمند رہنے لگی ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والی سحرش جو تین بچوں کی ماں ہے نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ جہاں بھی جاتی ہے تو اپنے بچوں کو ساتھ لے کرجاتی ہے کیونکہ وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی، بچوں کو گھر پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتی اور اگر ساتھ لے جائیں بھی تو ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھتی ہیں اگر ایک منٹ کو انکے بچے انکی نظروں سے اوجھل ہوجائے تو ان پر خوف طاری ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے بچے جب سکول میں بھی ہوتے ہیں تو بھی ان کا سارا وقت پریشانی میں گزرتا ہے کہ خدانخواستہ کہیں ان کے بچوں کے ساتھ زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہ آئے کیونکہ آج کل کسی پربھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ سکولز اور مدرسوں میں کیمرے نصب کئے جائیں اور اس کے ساتھ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جائے کیونکہ آخر کب تک وہ اپنے بچوں کو اپنی نظروں کے سامنے رکھیں گی؟ کیونکہ آجکل کمپیٹیشن کا دور ہے اور بچوں کو تعلیم حاصل کرنے اور باقی چیزوں کے لیے باہر جانا پڑتا ہے۔

2019 میں بچوں کے ساتھ جنسی واقعات کی تعداد

بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی  تنظیم ’ساحل‘ کی 2019 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق صرف جنوری سے جون 2019 تک بچوں کے ریپ کے1304 واقعات سامنے آئے۔

رپورٹ کے مطابق 203 واقعات میں بچے کو اپنے ہی گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 300 واقعات میں رشتہ دار نے بچے کو اپنے گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا، 12 مدرسے میں نشانہ بنے، تین کو ملزم کی کام کرنے والی جگہ میں نشانہ بنایا گیا، جبکہ 162 واقعات کھلی جگہ جیسا کہ کھیت، گلی اور جنگلوں میں پیش آئے۔

 جنسی تشدد کے حوالے سے لوگوں میں شعور

انہیں پریشان افراد میں ایک گل رخ بھی ہے۔ 22 سالہ گل رخ نے جوکہ ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہے نے ٹی این این کو بتایا ‘آئے روز بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات دیکھتی ہوں جس سے میں بہت ڈر گئی ہوں، میں خود مدرسہ میں علم حاصل کرچکی ہوں، پر اب میں نہیں چاہتی کہ میری بھتیجی مدرسہ جاکر علم حاصل کریں’

پشاور سے تعلق رکھنے والی گل رخ نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا کہ پہلے لوگوں میں اتنا شعور نہیں تھا کہ وہ جنسی تشدد اور ہراسانی کو سمجھ سکتے لیکن اب لوگ اس کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر بھی درج کرارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ کیوں نہیں چاہتی کہ انکی بھتیجی مدرسہ جاکر پڑھے تو اس کے پیچھے چند وجوہات ہیں۔ ‘میں خود جب چھوٹی تھی مدرسہ میں پڑھتی تھی، ہمارے قاری صاحب لڑکوں کو سٹک سے مارتے تھے جب کہ لڑکیوں کو ہاتھ سے مارتے تھے، پہلے ہمیں اتنی سمجھ نہیں تھی لیکن اب جب میں یاد کرتی ہوں کہ وہ لڑکیوں کےچہروں کو چھوتے تھے تو مجھے بہت برا لگتا ہے کیونکہ اصل میں وہ لڑکیوں کو ہراساں کرتے تھے’

ماہرین کے مطابق کم عمری سے ہی سمجھانا چاہیئے کہ گُڈ ٹچ‘ اور’بیڈ ٹچ‘ کیا ہوتا ہے، کن حالات میں وہ کسی کو یا کسی کا کہا گیا کام کرنے سے انکار کریں اور یہ کہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائیں۔

والدین کی عدم توجہ اور بچوں سے فاصلہ

لیکن دوسری جانب بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم گروپ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ عمران ٹکر نے اس حوالے سے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے والدین میں ابھی تک اس حوالے سے وہ شعور نہیں جو ہونی چاہیئے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ہمارے بچے اس سے محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ کسی بچے کے ساتھ حراسانی کا کوئی پیش بھی آئے تو بھی والدین اس کو خاموش کرادیتے ہیں اور یا کہہ دیتے ہیں کہ یہ تمہاری غلطی ہے جوکہ سراسر غلط ہے۔

ٹی این این کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ دوسری بات یہ ہے کہ آجکل والدین بچوں کی ضروریات کی تو پوری کرتے ہیں لیکن ان کو توجہ نہیں دیتے، ان پر نظر نہیں رکھتے کہ ان کے بچے کہاں اور کن کے ساتھ وقت گزار رہے ہیں؟

عمران ٹکرنے مزید کہا’ ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ والدین نے بچوں اور اپنے درمیان فاصلہ بھی بہت پیدا کررکھا ہے، ہم بچوں سے بات نہیں کرتے اگر بچے کچھ کہنا بھی چاہیے تو ان کو ہم خاموش کرادیتے ہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ بچہ اپنا مسئلہ والدین کو بتانا چاہتا ہو اور اس طرح والدین اس کو بچا سکتے ہو لیکن والدین اس کی بات کو سنتے ہی نہیں’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اکثر والدین بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کو رپورٹ بھی نہیں کرتے اور اس کو دبا دیتے ہیں جب تک وہ اس پر خاموش رہیں گے تب تک حکومت مشینری حرکت میں نہیں آئیں گی اور ایسے ملزمان قانون کے کٹہرے میں نہیں لائے جاسکیں گے۔

بچوں پرزیادہ سختی نہ کریں

اس حوالے سے سائیکالوجسٹ وجاہت ارباب کا کہنا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز پہلے بھی ہوتے تھے تاہم اب رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہیں پہلے لوگ ایسے کیسز کے بارے میں بات تک نہیں کرتے تھے اور چھپاتے تھے۔ وجاہت ارباب کے مطابق بچوں کے ساتھ ان کیسزمیں زیادتی کی وجہ یہ بھی ہے کہ پورن سائٹس پرکوئی پابندی نہیں ہے اور ہرکسی کے پاس موبائل ہے جس میں وہ آسانی کے ساتھ یہ چیزیں دیکھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک تو حکومت کو چاہیے کہ وہ پورن سائٹس کو بند کریں اور اس کے ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچوں پرنظر رکھیں۔ وجاہت ارباب نے کہا کہ والدین بچوں پراتنی زیادہ سختی نہ کریں کہ وہ خود غیرمحفوظ سمجھنے لگے۔ وہ کہتی ہے ‘بچوں کو کھیلنے دیں، ان کو باہر جانے سے نہ روکیں، ان کو نہ کہیں کہ اگر آپ باہر گئے تو آپ کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے گا لیکن ان پر نظر رکھیں’

کام کرنے والی خواتین کے حوالے سے وجاہت نے کہا کہ ان کو چاہیئے کہ وہ ایسے افراد کے پاس اپنے بچوں کو چھوڑ کرجائے کہ ان پہ وہ سو فیصد اعتبار کرتی ہو۔

 

 

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button