‘غربت کے ہاتھوں مروں بھی تو پاکستان کو ترجیح دوں گا’
چالیس سال پہلے افغانستان میں بدامنی کے سبب پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کو پاکستان کے جن کیمپوں میں جگہ دی گئی ان میں ایک خراسان کیمپ بھی ہے جو چارسدہ روڈ کے پاس واقع ہے۔خراسان کیمپ اس زمانے میں مہاجرین سے کچھا کھچ بھرا ہوتا تھا۔ سردی کی شدت اور گرمی کی حدت سے بچنے کے لیے کچھ لوگوں نے نزدیکی ایک دریا کے پاس مٹی کے ٹیلوں میں غار بھی بنا لیے جن کو پشتو میں گارا بولتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مہاجرین کرائے کے گھروں میں منتقل ہو گئے جب کہ بعض نے اپنی مدد آپ کے تحت خراسان کیمپ میں ہی مٹی کے گھر بنا لیے۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے خراسان کیمپ ٹینٹس سے گھروں میں تبدیل ہو گیا۔ تاہم 2010 کا سیلابی ریلہ ان گھروں کو بھی ساتھ بہا لے گیا۔
اس حوالے سے مزید تفصیل کے لیے اس لنک پرکلک کریں: پولیس ایک دفعہ انھیں پکڑ کر ساتھ لے گئی تھی اور انھیں ڈرایا دھمکایا۔