"روٹی نہیں تھی لوگ بھوکے پیٹ چلے گئے”
سٹیزن جرنلسٹ شاہ زیب
آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد دارالحکومت پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے بیشتر علاقوں میں نانبائیوں کی جانب سے ہڑتال جاری ہے بطور احتجاج جنہوں نے اپنی دکانیں بند کر دی ہیں۔
نانبائیوں کے احتجاج کے بعد صوبے کے عوام خصوصاً ہوٹلوں، مزدوروں اور ہاسٹلوں میں رہنے والے طلباء روٹی کی عدم دستیابی کے باعث سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔
ٹی این این نے اس حوالے سے شہریوں کے ساتھ بات چیت کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ نانبائیوں کی ہڑتال کی وجہ سے وہ کتنے متاثر ہوئے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں رواج نامی ایک ہوٹل مالک کا کہنا تھا کہ ہڑتال کی وجہ سے آج ان کا کاروبار بہت متاثر رہا، درجنوں لوگ کھانا کھانے آئے تاہم روٹی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھوکے پیٹ چلے گئے۔
چھولے فروش شمس علی نے بتایا کہ حسب سابق آج بھی ڈھیر سارے چھولے اور لوبیا تیار کیے ہیں تاہم روٹی نہیں تھی جس کی وجہ سے ان کی بکری نہیں ہوئی اور اب سارا مال رہ گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ملک میں مہنگائی نے جینا دوبھر کر دیا ہے تو دوسری جانب اب روزگار کا غم کھائے جا رہا ہے، غریب آخر جائے کہاں اور کس طرح اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کمائے؟
عبداللہ نامی ایک اور ہوٹل کے مالک کا کہنا تھا کہ وہ روٹی گھر سے تیار کر کے لاتے اور اپنا کام چلا رہے ہیں لیکن انہیں خدشہ ہے کہ اگر ہڑتال یوں ہی جاری رہی تو ان کیلئے اپنا کام جاری رکھنا دشوار ہو جائے گا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں مرسلین نامی ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ روٹی نہ ملنے کی وجہ سے وہ برگر کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب ہڑتال کی وجہ سے کریانہ دکانوں پر کافی چہل پہل دیکھنے میں آئی۔
اس حوالے سے عبدالشکور نامی ایک دکاندار نے ٹی این این کو بتایا کہ اور دنوں کے مقابلے میں آج ان کے بسکٹ اور کیک زیادہ فروخت ہوئے جبکہ دوپہر کے کھانے میں انہوں نے خود بھی کیک اور بسکٹ ہی کھائے ہیں۔
ادھر نانبائیوں کی تنظیم کے صدر حاجی محمد اقبال نے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ 115 گرام روٹی کی قیمت دس روپے جبکہ 170 گرام کی 15 روپے مقرر ہونے کا اعلامیہ جاری ہونے تک ان کی ہڑتال جاری رہے گی۔