صحتعوام کی آواز

جعلی کورونا سرٹیفیکیٹس: خیبر پختونخوا میں نادرا کا نمز نظام ہیک ہونے کا انکشاف

افتخار خان

خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں کورونا ویکسینیشن کے جعلی سرٹیفیکیٹس کے لئے اب تک محکمہ صحت کے ملازمین کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا تھا لیکن اب اس حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ نادرا کی جانب سے ویکسین کا ریکارڈ محفوظ کرنے والا نظام نمز (NIMS) ہیک ہو گیا تھا۔ محکمہ صحت کے ایک ذمہ دار افسر نے بتایا ہے کہ ہیکرز نے نمز میں ڈیٹا رجسٹر کر کے کچھ لوگوں کو جعلی طریقے سے نادرا سے سرٹیفیکیٹس جاری کروائے ہیں۔

ملک بھر میں کورونا ویکسینیشن کے جعلی سرٹیفیکیٹس کا مسئلہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ کے ایف آئی اے نے گزشتہ ہفتے سے باقاعدہ انکوائری بھی شروع کر دی ہے جن میں زیادہ تر ویکسینیشن سے وابستہ ہیلتھ ورکرز کے خلاف تحقیق کی جا رہی ہے۔

اس ضمن میں سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں گزشتہ ماہ مردان اور نوشہرہ میں دو ہیلتھ ورکرز کو نوکری سے نکال دیا گیا تھا جبکہ پشاور میں ایک کے خلاف انکوائری ابھی بھی جاری ہے۔

گزشتہ ہفتے تک جعلی سرٹیفیکیٹس کے مسئلے کو ایک عام معاملے کی طرح دیکھا جا رہا تھا لیکن 23 ستمبر کو لندن میں بیٹھے سابقہ وزیراعظم نواز شریف کے لاہور میں جعلی سرٹیفیکیٹ بننے کی خبر سامنے آنے کے بعد اس معاملے نے گھمبیر شکل اختیار کر لی ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کی تضحیک ہونے کے بعد حکومت نے ایف آئی اے کو ملک بھر میں جعلی سرٹیفیکیٹس کی باقاعدہ تحقیق کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ایف آئی اے نے اس ضمن میں اب تک 41 افراد کی نشاندہی کے بعد ان کو گرفتار کیا ہے جن سے ادارے کے مطابق مزید تحقیق کی جا رہی ہے۔

جعلی سرٹیفیکیٹس کے لئے نادرا میں حقیقی ڈیٹا کی انٹری کی وجہ سے ایف آئی اے کو بھی تحقیقات میں مشکلات کا سامنا ہے اور ادارے کے ایک اہلکار کے مطابق وہ لوگ اس ضمن میں صرف اپنے خفیہ ذرائع پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہیں یعنی جن کے خلاف ان ذرائع سے اطلاع ملے گی ان ہی کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

ہیلتھ ورکرز ہی کیوں نشانے پر:

جعلی سرٹیفیکیٹس کے لئے زیادہ تر ان ہیلتھ اہلکاروں پر شک کیا جا رہا ہے جن کی ویکسینیشن سنٹر میں ریکارڈ کے اندراج کی ڈیوٹی ہوتی ہے کیونکہ نادرا کے ریکارڈ میں ڈیٹا یہی اہلکار ہی ڈال سکتے ہیں اور سامنے آئے کیسز سے بھی یہی ثابت ہے۔

بونیر سے تعلق رکھنے والے تاجر رحیم گل (فرضی نام) نے بھی کورونا سے بچاو کی ویکسین لگائے بغیر نادرا سے تصدیق شدہ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ وہ ویکسین لگانے کے لئے کراچی میں دو دفعہ ویکسین سنٹر گئے تھے لیکن دونوں دفعہ رش کی وجہ سے گھنٹوں انتظار کے باوجود بھی ان کی باری نہیں آئی، "میرا محکمہ صحت میں ایک دوست ہے، میں نے ان سے اپنا مسئلہ بیان کیا جنہوں نے مجھ سے شناختی کارڈ کی کاپی لی اور دو تین گھنٹوں بعد مجھے نادرا سے تصدیق شدہ سرٹیفیکیٹ فراہم کر دیا۔”

رحیم گل نے بتایا کہ اس سارے معاملے میں ہیلتھ ورکرز ہی ملوث ہیں، کوئی میری طرح یاری دوستی میں بنا دیتا ہے تو کوئی پیسے لے کر۔

چند ہفتے پہلے اس حوالے سے وٹس ایپ گروپس میں ایک مسیج کا سکرین شاٹ بھی زیر گردش رہا جس میں مختلف ویکسین کے سرٹیفیکیٹس کے چار ہزار سے بارہ ہزار روپے تک مختلف ریٹس دیئے گئے تھے۔

محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے زرائع کے مطابق مردان، نوشہرہ اور پشاور میں زیرعتاب ہیلتھ ورکرز پر بھی یہی الزام ہے کہ انہوں نے پیسے لے کر ویکسین نہ لگوانے والے افراد کی نمز سسٹم میں انٹری کی ہے جس کی وجہ سے ان کو نادرا کی جانب سے سرٹیفیکیٹس جاری کئے گئے ہیں۔

اسی طرح پشاور سے ہیلتھ رپورٹر، سینئیر صحافی ذاہد میروخیل کہتے ہیں کہ پیسوں کے علاوہ ہیلتھ ورکرز کئی دوسری وجوہات پر بھی نمز سسٹم میں ویکسین لگوائے بغیر شہریوں کا ڈیٹا ڈال دیتے ہیں جن کے ان کے پاس ثبوت بھی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ محکمہ کی جانب سے ہر ویکسینیشن سنٹر کو ہدف دیا جاتا ہے کہ ایک دن میں انہیں ہزار یا دو ہزار افراد کو ویکسین لگانی ہے اور ہدف پورا نہ کرنے پر ان کی ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے۔ عوام کی جانب سے ویکسینیشن میں عدم دلچسپی کی وجہ سے اکثر اوقات جب ہدف پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو اہلکار ویکسین سے انکاری افراد کو ویکسین لگائے بغیر سرٹیفیکیٹس کی آفر کر کے ان سے شناختی کارڈ نمبرز لے لیتے ہیں۔

زاہد میروخیل نے مزید بتایا کہ اس ضمن میں ایک اور سکینڈل بھی سامنے آیا ہے، ویکسین لگانے والے ورکرز نے یونین کونسلز کے ووٹر لسٹوں سے ریکارڈ لے کر ان کا ڈیٹا نمز سسٹم میں ڈال دیا ہے۔

پشاور میں اس قسم کے درجنوں افراد نے محکمہ صحت کو شکایات کی ہیں کہ جب انہوں نے ویکسی نیشن کیلئے نادرا کو پیغام ارسال کیا تو انہیں جواب موصول ہوا کہ انہیں پہلا ٹیکہ لگ چکا ہے اور دوسرے ٹیکے کی مدت مکمل ہونے پر انہیں آگاہ کر دیا جائے گا۔ شہریوں کے مطابق انہوں نے اس سے پہلے کسی بھی ویکسی نیشن سنٹر سے رجوع نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان کا ڈیٹا بھیجا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسی نیٹرز نے کارکردگی دکھانے کیلئے متعلقہ یونین کونسلوں میں موجود ووٹر لسٹوں سے جعلی اندراج کئے ہیں۔

نادرا کے نظام کے ہیک ہونے کا انکشاف:

نادرا کے نظام نمز میں غلط طریقے سے رجسٹریشن کا شک تو حکومت سمیت تمام افراد کا ویکسینیٹرز پر ہی جاتا ہے لیکن اس ضمن میں ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ ان ویکسینیٹرز کے نمز اکاونٹس ہیک ہو گئے تھے۔

یہ انکشاف کسی اور نے نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے ویکسینینشن پروگرام ای پی آئی کے ڈائریکٹر نے خود کیا ہے۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عارف نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب اور سندھ سے بھی چند ہیکرز نے نمز سسٹم تک رسائی حاصل کی تھی۔ ہیکرز کے طریقہ کار کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان لوگوں نے نمز کے اکاونٹس کے حامل ہیلتھ ورکرز کو ٹیلیفون کالز کر کے خود کو این سی او سی کے اہلکار ظاہر کیا اور اکاونٹس کی تصدیق کے بہانے ان سے کوائف حاصل کر کے متعلقہ اکاونٹس تک رسائی حاصل کی تھی۔

ڈاکٹر عارف نے کہا کہ ایسے چند واقعات سامنے آنے کے بعد انہوں نے ڈیٹا انٹری آپریٹرز کو ایسی کالز کے حوالے سے آگاہ کر دیا اور کوائف بذات خود ان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ شئیر کرنے سے منع کر دیا۔

شہریوں کی چالاکیاں

حکومت اہلکاروں اور اداروں کی نااہلی کے علاوہ ویکسین سے انکاری بعض شہریوں نے اپنی چالاکیوں سے بھی ویکسین لگائے بغیر سرٹیفیکیٹس حاصل کئے ہیں۔

ضلع ہنگو سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ انہوں نے جب ویکیسن کے حوالے سے مختلف خبریں اور افواہیں سنیں اور دیکھیں تو وہ ڈر گئیں۔ پھر جب انہوں نے یہ سنا کہ ویکسین کے سرٹیفیکیٹس نہ رکھنے والے شہریوں کے شناختی کارڈز، موبائل سمز بلاک کر دیئے جائیں گے تو وہ مخمصے کا شکار ہو گئیں، "ہمارے محلے میں ایک افغان خاتون تھی جو ویکسین لگوانا تو چاہ رہی تھی لیکن پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز نہ رکھنے کی وجہ سے لگوانے سے قاصر تھی۔ میں نے اس سے بات کی اور اپنا شناختی کارڈ اسے دے دیا جس پر اس نے ویکسین لگوا لی اور مجھے سرٹیفیکیٹس مل گیا۔”

خاتون اب اپنے اقدام پر پشیمان ہے اور کہتی ہے کہ اب وہ خود ویکسین لگوانا چاہ رہی ہے لیکن نہیں لگوا سکتی۔

کتنے لوگوں نے جعلی سرٹیفیکیٹس بنوائے ہیں؟

حکومت پاکستان نے نومبر کے آخری ہفتے میں بارہ سال سے زیادہ عمر والے بچوں کو بھی ویکسین لگانے کا آغاز کر دیا ہے۔ اسی طرح ملک بھر میں اب تک کورونا ویکسین کی پہلی ڈوز لگوانے والے شہریوں کی تعداد آٹھ کروڑ سے تجاوز کر گئی جس کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے لیکن ان میں ویکسین کی کورس مکمل کرنے والے افراد کی تعداد مجموعی آبادی کا صرف بارہ فیصد ہے۔

اسی طرح خیبر پختونخوا میں ستمبر کے اختتام تک مجموعی طور پر 8884797 افراد کو پہلی ڈوز لگوائی گئی ہے جبکہ دوسری ڈوز لگوانے والے شہریوں کی تعداد 3829820 ہے۔ پہلی اور دوسری ڈوز لگوانے والوں کے مابین اس پانچ لاکھ سے زیادہ فرق کے حوالے سے خیبر پختونخوا ای پی آئی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر فیاض رومی کہتے ہیں کہ لوگ افواہوں کی وجہ سے دوسری ڈوز لگوانے سے کترا رہے ہیں لیکن حکومت نے اب زیادہ توجہ اس دوسری ڈوز پر مرکوز کر دی ہے تو امید ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں یہ فرق کافی حد تک کم ہو جائےگا۔

کتنے لوگوں نے غلط طریقے سے نادرا سے سرٹیفیکیٹس جاری کروائے ہیں وہ بھی اس ڈیٹا میں شامل ہے لیکن ایسے افراد کے حوالے سے محکمہ صحت اور ایف آئی اے کے پاس کوئی تصدیق شدہ ڈیٹا نہیں ہے۔

زاہد میروخیل کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ویکسین لگوائے بغیر سرٹیفیکیٹس حاصل کئے ہیں ان کی تصدیق صرف ان تین طریقوں سے ممکن ہے کہ یا تو بنانے اور بنوانے والے افراد خود اعتراف جرم کر لیں، یا ایف آئی اے کے خفیہ ذرائع نشاندہی کریں اور یا تمام سرٹیفیکیٹس حاصل کرنے والوں کی اینٹی جن ٹیسٹ کئے جائیں جو کہ ممکن نہیں ہے۔

جعلی سرٹیفیکیٹس سکینڈل کے علاوہ خیبر پختونخوا میں ویکسینیشن اور ویکسین لگوانے والے افراد کے ڈیٹا میں بھی بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے جس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ 1: بیک لاگ، 2: غیرتصدیق شدہ ڈیٹا

بیک لاگ اور غیرمصدقہ ڈیٹا

صوبائی حکومتوں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ویکیسن کا تمام ریکارڈ کورونا پر قابو پانے کے لئے قائم وفاقی ادارے این سی او سی کو بھیجا جاتا ہے۔ اس ریکارڈ میں ویکسین لگوانے والے افراد کے تمام کوائف کے علاوہ لگنے والی ویکسین کی خالی شیشیاں، استعمال شدہ سرنج، ضائع شدہ شیشیاں اور سرنج، بچ رہ جانے والی شیشیاں اور سرنج تک کا ڈیٹا شامل ہوتا ہے جس کا پھر ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ موازنے میں اگر استعمال شدہ ویکسین ویکسینیٹڈ افراد کے مقابلے میں زیادہ ہو تو اس فرق کو بیک لاگ کہا جاتا ہے جبکہ اگر اندراج لگائی گئی ویکسین کے مقابلے میں زیادہ ہو تو اس کو غیرمصدقہ ڈیٹا کہا جاتا ہے۔

30 ستمبر تک خیبر پختونخوا میں بیک لاگ 101,204 جبکہ غیرمصدقہ ڈیٹا 170193 تک پہنچ چکا تھا۔

اس حوالے سے ڈاکٹر عارف کہتے ہیں کہ اکثر اوقات لوگ اس بیک لاگ یا غیرمصدقہ ڈیٹا کو بھی جعلی سرٹیفیکیٹس گردانتے ہیں جو کہ غلط ہے۔

خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد ویکسین سنٹرز، 34 ماس ویکسین سنٹرز اور 78 موبائل ویکسین ٹیمیں ہیں۔ ڈاکٹر عارف کہتے ہیں کہ بیک لاگ زیادہ تر موبائل ٹیموں یا دور دراز علاقوں میں قائم کئے گئے مراکز کی وجہ سے سامنے آیا ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہوتی تو ویکسینیٹرز اندراج ایک رجسٹر میں کر دیتے ہیں اور انٹرنیٹ تک رسائی کے بعد نمز سسٹم میں ڈال دیتے ہیں۔

دوسری جانب زاہد میروخیل کہتے ہیں کہ بیک لاگ تو ختم ہو جائے گا لیکن غیرمصدقہ ڈیٹا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے جن میں جعلی سرٹیفیکیٹ کا معاملہ سرفہرست ہے کیونکہ لوگوں کا اندراج ہو چکا ہے جبکہ ویکسین استعمال میں نہیں لائی گئی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button