صحت

کم عمری کی شادی نے سحرش سے اس کا بچپن چھین لیا

نسرین جبین

سحرش اپنی سہلیوں کے ساتھ چھت پر کھیلنے جارہی تھی کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے اپنی ماں کی آواز آئی کہ ’’ نیچے آجائو تم کھیلنے کے لئے نہ جائو ادھر آکر کمرے میں بیٹھ جائو آج تمھارا نکاح ہے بری بات ہے لوگ کیا کہیں گے کہ تم کھیل رہی ہو ‘‘ یہ آواز کان میں پڑتے ہی 14 سالہ سحرش سیڑھیوں سے اتر کر واپس کمرے میں آکر بیٹھ گئی بڑی بڑی عمر کے عورتیں اس کے گرد بیٹھیں آپس میں جو باتیں کررہی تھیں وہ اس کے ’’ سر کے اوپر‘‘ سے گزررہی تھی وہ تو اب بھی یہ سوچ رہی تھی کہ وہ لڑکیاں سب کیسے کھیل رہی ہیں بھاگ دوڑ رہی ہیں ، ہنس رہی ہے اور مجھے یہاں بیٹھا دیا گیا ہے، اسے معلوم نہیں تھاکہ جس کو نٹھی کے ساتھ اسے باندھا جارہاہے اسے اب بندھے ہی رہنا ہے۔ کھیلنے کودنے اور سہلیوں کے ساتھ کھیلنے ہنسنے ، ہلہ گلہ کرنے کا زمانہ بس اتنا ہی تھا اب تو ذمہ داریاں نبھانے کا وقت شروع ہوگیا ہے ۔ اپنی نئی ذمہ داریوں سے متعلق وہ سب باتیں اردگرد بیٹھی خواتین اور گھر والوں سے سن تو رہی تھی لیکن سمجھ نہیں پارہی تھی کیونکہ اس کے ناپختہ ذہن میں اتنی بڑی بڑی باتیں سمجھنے اور اسے بہتر طوپر نبھانے کا سلیقہ نہیں سمایا جارہا تھا۔مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا اور شمام کو دولہا جوکہ اس سے عمر میں 10 سال بڑا تھا برات لے کر آگیا نکاح کے وقت یہ طے پایا کہ 1 سال بعد رخصتی کی جائے گی ۔1 سال پلک جھپکتے ہی گزر گیا اور ابھی بمشکل سحرش 15 سال کی حدوں کو چھونے لگی تھی کہ رخصتی ہوگئی اور وہ بظاہر تو بیاہ کر اور حقیقت میں ذمہ داریوں کی ایک بڑی گٹھری سر پر اٹھائے ایک نئے گھر منتقل ہوگئی۔
اس گھر میں اسے سوفیصد درست اور سب کی امیدوں ، خواہشات او امنگوں کو پورا کرنا ہے ، سب کی خدمت کرنی ہے کچن اور لانڈری سنبھالنی ہے سب کا احترام کرناہے اپنی خواہشات اور ضروریات کا اظہار نہیں کرنا اور اونچا ہنسنا یا بولنا نہیں ہے، بس گائے بن کر رہنا ہے کیونکہ اب وہ بچی نہیں رہی ہے عورت بن گئی ہے اگرچہ اس کا وجود بالغ تو ہے لیکن ناتواں ہے کمزور ہے اور اسی وجود سے اسے اب ایک اور وجود تیار کرناہے جو اس کے شکم میں اس کی کمزور ہڈیوں سے خوراک حاصل کرے گا او ر پھر جنم دینے کے تکلیف دہ مراحل سے بھی اسے گزرنا ہے۔
لیکن چونکہ اس کے والدین نے اس کی شادی کا فیصلہ کر لیا ہے اس لئے اسے ایک دم سے بالغ (جسمانی طورپر مضبوط ) او عاقل بھی ہو جانا ہے لیکن سحرش اپنے ناپختہ عقل کو بچپنے سے نکال کر سمجھ داری کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کررہی تھی سب کی خدمت ، تابعداری اور فرمانبداری نبھانے کی تگ و دو میں تھی کہ سب اسے اچھا سمجھیں اور نیک اور اچھی بہو تصورکریں ایسے میں اسے ایک اور زندگی کو جنم دینا پڑ گیا ۔ سولہ سال کی عمر میں مزید ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا ۔ ایسے میں اس کی اپنی شخصیت ، تعلیم ، حیثیت ، بچپن ، احساسات کہیں کھو گئے او وہ کولہو کے بیل کی طرح صبح سے راست تک اور پھر صبح تک کسی نہ کسی کام میں جت جاتی اور زندگی کے دن گزرتے گئے اس کی 20 سال کی عمر تک اب وہ تینوں بیٹوں کی ماں بن چکی تھی اور اب ان کی پرورش دیکھ بھال ، تعلیم تربیت انہیں اچھا اور نیک انسان بنانے کی بھرپور ذمہ داری نبھا رہی تھی اب تو 20 سال کی عمر میں وہ خود بھی سیکھنے کے مراحل سے گزر رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی زندگی گزانے کے بہترین اصول سمجھا رہی تھی۔

ایسے میں شادی کے ان شروع کے ماہ و سال میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک کرنے کی کوشش میں کچھ ایسا ہوا بچپن چھین کر ذمہ داریوں کی گٹھڑی اس کے ذہن پر بوجھ بن کر گری جس نے اسے ذہنی کوفت ، تنائو ، ذہنی دبائو ، انگزائٹی اور اس جیسے کئی نفسیاتی مسائل کا شکار بنا دیا جبکہ اس کے نازک وجود سے مزید وجود کی افزائش و پیدائش نے اس کی ہڈیوں کو بھی کمزور اور لاغر کر دیا اور اب وہ 35 سال کی عمر میں 50 سال کی دکھنے لگ گئی جبکہ اس کی ماں اسے کبھی ایک ڈاکٹر اور کبھی دوسرے ڈاکٹر کی طرف لئے لئے پھرتی ہے۔
وہ ماں جس نے سمجھا تھا کہ بیٹی جلد ی اپنے گھر کی ہو جائے اور ہم اپنی ذمہ داری نبھا دیں اس کاکام مزید بڑھ گیا اور تکالیف بھی بڑھ گئیں اب وہ پچھتاتی ہے کہ مجھے اپنی بیٹی کی زندگی دائو پر لگانے سے قبل سوچنا چاہیے تھا کہ وہ جسمانی او ذہنی دونوں طرح سے عاقل او ر بالغ ہو جائے تو میں اس پر ذمہ داریاں ڈالو ں تاکہ وہ بہتر پر نبھا سکے اور ایسا نہ ہو کہ کام نمٹا دینے فرض ادا کر دینے کی بجائے ہمارا کام بڑھ نہ جائے فرض ’’ قرض ‘‘ کی صورت نہ اختیار کر لے۔ جوہمیں ساری زندگی دینا پڑے او اس کاازالہ ممکن نہ ہو ۔
سحرش کی طرح پاکستان میں کئی بچیوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر ان کا بچپن ختم کر کے ان پر وقت سے پہلے ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈال کر توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک بہترین قوم تشکیل دیں جو مذہبی ، معاشرتی ، معاشی ،انسانی ہر لحاظ سے بہترین قوم ہو لیکن یہ حقیقتاً ممکن نہیں یا پھر آپ کو ایک بہترین قوم کے حصول کی خواہش سے دستبردار ہونا پڑے گا یا پھر قوموں کو تشکیل دینے والی مائوں کو باقاعدہ عاقل و بالغ اور بہترین انسان بننے کے بعد ہی اس پر یہ ذمہ داری ڈالنی ہوگی۔
جب کم عمری کی شادیوں کی بات کی جاتی ہے تو کے پی برطانوی راج کی طرف سے 1929میں نافذ کردہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ لا کی پیروی کرتا ہے جس میں 18 سال سے کم عمر لڑکوں اور 16 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی سہولت کاری پر ایک ہزار روپے جرمانہ یا ایک ماہ قید کی انتہائی معمولی سزا مقرر کی گئی ہے۔صوبے میں بچوں سے شادی کے قانون میں بہتری لانے کے لئے بہت سی کوششیں کی گئیں ہیں لیکن انہیں حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر مذہبی قدامت پسندوں کی طرف سے ہمیشہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ ا اور اس لئے اسے سرد خانے میں ڈالا دیا گیا۔ بنیادی اعتراض لڑکیوں کی شادی بیا ہ کی عمر 16 سے بڑھا کر 18 سال کرنا ہے۔
یونیسیف کے مطابق پاکستان میں % 12 فیصد لڑکیوں کی شادی 21 سال سے کم عمر جبکہ تین فیصد لڑکیوں کی شادی 21 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان دنیا میں چھٹا بڑا ملک ہے جہاں بچیوں کی سب سے زیادہ شادیاں کی جاتی ہیں اور تقریبا 1.2 ملین لڑکیاں بچپن کی شادی کا شکار ہو چکی ہیں, دستیاب اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 11 فیصد شادیاں بچپن میں ہی کر دی جاتی ہیں دوران تربیت اس بات پر زور دیا گیا کہ بچپن کی شادیوں کو رپورٹ کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ ان کے پس پردہ عوامل ‘ معاشرے اور معاشیات پر اس کے اثرات کو اجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی بچپن کی شادی سے متعلق اپنی سفارشات دے دیں
اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) بچپن کی شادی سے متعلق قانون سازی کے حوالے سے اپنی سفارشات وزارت قانون کو بھیج دیں ہیں جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ حکومت بچوں کی شادیوں کے خاتمے کے لیے آگاہی مہم شروع کرے ۔کم عمر کی شادیاں غلط ہیں اور ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے ، آئینی ادارہ تجویز کرتا ہے کہ حکومت مذہبی علماء اور میڈیا کی مدد سے بچوں کی دلہنیں لینے کے رواج کے خلاف وسیع پیمانے پر آگاہی مہم شروع کرے تاہم سی آئی آئی اب بھی شادی کے لیے عمر بڑھانے کی حمایت نہیں کرتی لیکن تجویز کرتی ہے کہ 18 سال سے پہلے شادیوں کو روکنے کے لیے انتظامی اقدامات متعارف کرائے جائیں جیسے کہ ایک جیسی شادی کی دستاویز متعارف کرائی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دلہا اور دلہن کے پاس قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) دستیاب ہوں جو شادی کی دستاویزات کے ساتھ منسلک "ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ خیبر پختون خوا اسمبلی نے کم عمری کی شادی سے متعلق قانون سازی کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے سفارشات طلب کیں تھیں۔
پروگرام کوآرڈینیٹر بلیو وینز قمر نسیم کے مطابق بچپن کی شادیوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی ان میں تربیت اور صلاحیت کی تعمیر کے ذریعے خواتین کو معاشی بااختیار بنانا اور ایک اہم معاشی عنصر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنا ، کاٹیج اور دیگر گھریلو صنعتوں ، کڑھائی اور سلائی جیسی خواتین کی کاروباری صلاحیت کو فروغ دینا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے ”ہمیں ایمان کی طاقت کو متحرک کرنا چاہیے۔ مذہبی رہنما دنیا میں درپیش چند اہم مسائل کے بارے میں رویوں اور رائے کو تبدیل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ، جن میں بچپن کی شادی بھی شامل ہے۔اس حوالے ے ان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں قانون سازی بالکل قریب ہے اور مختلف گروہوں کی سفارشات حاصل کرنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت جاری ہے جس میں مذہبی رہنما اور سیاسی جماعت کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button