دریائے سوات پر دفعہ 144 کا نفاذ اور عوام کا ردعمل، کیا پابندی ہی ہر مسئلے کا حل ہے؟
رفیع اللہ خان
سوات میں ضلعی انتظامیہ نے ٹی این این کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے دریائے سوات کے کنارے پر باقاعدہ طور پر لیوز اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگا کر مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو بھی دریائے سوات میں نہانے، تیرنے اور کشتی رانی سے عملی طور پر منع کرکے ان کی زندگیاں محفوظ بنانے میں کردار ادا کر رہی ہے۔
ٹی این این نے چند روز قبل یہ خبر شائع کی تھی کہ ضلعی انتظامیہ صرف دفعہ 144 کے تحت دریائے سوات میں نہانے، تیرنے اور کشتی رانی پر پابندی تو لگاتے ہیں لیکن اس کے باوجود لوگ دریا میں نہاتے ہوئے ڈوب جاتے ہیں اور پھر ریسکیو 1122 کے اہلکار ان کی لاشیں تلاش کرتے ہیں جبکہ انتظامیہ عملی اقدامات نہیں اٹھاتے جس کی وجہ سے گزشتہ دس دنوں میں سات افراد دریائے سوات کی بے رحم موجوں کی نذر ہوئے تھے۔
اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی محمد جواد آصف نے فضاگٹ بائی پاس کے نزدیک دریائے سوات میں نہانے والوں کے خلاف آپریشن کیا۔ اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ سوات کی جانب سے ضابطہ فوجداری کے دفعہ 144 کے تحت دریائے سوات میں نہانے پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی محمد جواد آصف نے عائد شدہ پابندی کے باوجود دریائے سوات میں نہانے پر تین افراد کو گرفتار کیا اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ188کے تحت ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
مینگورہ کے رہائشی نعمان خان نے ٹی این این کو بتایا کہ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں آج کل 38 سے 43 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی رہتی ہے اس لئے ہم گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لئے دریائے سوات میں نہانے جاتے تھے لیکن ابھی انتظامیہ نے پابندی لگائی ہے جس کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ضلعی انتظامیہ ایسی چند محفوظ مقامات کی نشاندہی کرے جہاں لوگوں کے ڈوبنے کا خطرہ موجود نہ ہو وہاں مقامی لوگ گرمی کا زور کم کرنے کے لئے نہائے اور اسی کے ساتھ ملک کے گرم علاقوں سے آئے ہوئے سیاح بھی دریائے سوات کے ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہو سکے۔
نعمان نے بتایا کہ پابندی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہوتا اس لئے انتظامیہ کو چاہئیے کہ وہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سوات ایک سیاحتی علاقہ ہے یہاں کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پراپر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کی زندگیاں بھی محفوظ ہو اور سیاحت کے ساتھ ساتھ یہاں کی رونقیں بھی بحال ہوں۔
اسسٹنٹ کمشنر بابوزئی محمد جواد آصف نے ٹی این این کو بتایا کہ پراوینشنل ڈیزاسٹر مینجمینٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے ) کے طرف سے فلڈ وارننگ جاری ہوئی ہے حالیہ دنوں میں دریائے سوات کا بہاؤ کافی تیز تھا جس سے جانی نقصان کا خدشہ لاحق رہتا ہے، انہوں نے بتایا کہ سیلابی موسم ہے ایسے میں ریلہ کہی سے بھی آسکتا ہے جو کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے اس لئے ایسے محفوظ مقامات کی نشاندہی ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فیملیز بھی اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہمراہ دریائے سوات کا رخ کرتی ہیں جنہیں وارننگ دیکر چھوڑا ہے تاہم تین افراد کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی پرگرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ انتظامیہ سے تعاون کریں اور اپنے بچوں کو دریائے سوات کے کنارے پر جانے اور نہانے پر سختی سے منع کریں تاکہ کسی بھی قسم کی جانی نقصان سے بروقت بچا جا سکے۔
یاد رہے کہ سوات میں ماہ جون، جولائی اور اگست میں کالام، بحرین، مدین اور دیگر پہاڑوں پر پہلے سے بڑی مقدار میں جمی برف پگھل جاتی ہے جسکا پانی مختلف جگہوں پر دریائے سوات میں گرجاتا ہے جس سے دریائے سوات کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے جو بعض اوقات سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔