آفیسز میں خواتین کے لئے الگ کمروں کا ہونا کتنا لازمی ہے، خواتین کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہیں؟
بشرہ محسود
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (PDHS) 2017-18 کے مطابق، پاکستان میں تقریباً %24 شیرخوار (0-5 ماہ) اور %17 بچے (6-11 ماہ) کو خصوصی طور پر دودھ پلایا جاتا ہے۔
سروے کے مطابق 24 فیصد بچے 6 ماہ کی عمر تک صرف دودھ پیتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ان کو گھر سے باہر لے جاتے وقت ماؤں کو ہزار بار سوچنا پڑتا ہے اور خاص طور پر قبائلی اضلاع کی خواتین کو۔ کیونکہ گھر سے باہر کہی پر بھی خواتین کے لئے کوئی ایسی خاص جگہ یا کمرہ نہیں ہوتا جہاں وہ آرام اور پردے سے اپنے بچے کو دودھ پلا سکیں ۔
ہاجرہ کا کہنا ہے کہ میں جب بھی ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے آتی ہوں تو وہاں ہمیں کئی گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور وہاں پر مردوں کا ہجوم بھی ہوتا ہے اور ایسے میں مجھے اپنے 3 ماہ کے بچے کو دودھ پلانے میں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے کیونکہ بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے اور برقے میں بچے کو دودھ پلانا بہت زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
ایک طرف ہم لوگ پردے کے بھی سخت پابند ہیں مگر دوسری طرف عورتوں کے لیے سب سے ضروری اور مجبوری والے کاموں کے لیے کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو میں اپنے بچے کو کئی کئی گھنٹوں تک دودھ نہیں پلاتی کیونکہ مجبوری ہوتی ہے اگر الگ کمرہ ہوتا تو ہم آسانی سے بچے کو دودھ پلاتے ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے وزیرستان تک کسی بھی اڈے میں خواتین کی انتظار گاہ موجود نہیں سردیوں میں تو پھر بھی گزارا ہو جاتا ہے مگر گرمیوں میں ٹوپی والے برقے میں بچے کو دودھ پلانا انتہائی مشکل ترین کام ہوتا ہے اور خاص طور پر جب بچی کی عمر دو یا تین ماہ ہو۔
سخت گرمی کی وجہ سے بچے روتے ہیں اور وہ دودھ نہیں پیتے جس کی وجہ سے اکثر بچوں کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے ۔ ایک ماں کے لیے یہ بہت مشکل کام ہے کہ وہ عوامی مقامات پر بچے کو کسی غیر محفوظ یا رازداری کے بغیر دودھ پلائے اور ایسا کرنا انتہائی شرمندگی کا باعث بنتا ہے ۔
نئی ماں بننے والی لڑکیاں اکثر بچوں کو اس شرمندگی کی وجہ سے دودھ پلانا ملتوی کر دیتی ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق چھ ماہ کی عمر تک بچے کو صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانا چاہیے ۔ اگر ان بچوں کو ماں کا دودھ نہیں پلایا جاتا تو یہ ان کے موت کا سبب بھی بنتا ہے
صدف کنول کا کہنا ہے کہ میں نادار آفس میں کام کرتی ہوں پہلے ہمارےآفس مرد و عورتیں ایک ساتھ ہوتی تھی تب بھی جب بچے کو دودھ پلانے کی ضرورت ہوتی تھی تو کوئی علیحدہ کمرہ موجود نہیں تھا بہت تکلیف ہوتی تھی اکثر میں اپنے کیبن کے نیچے بیٹھ کر بچے کو دودھ پلاتی تھی ۔ اور اب ہمارے میل و فی میل کے الگ الگ دفتر بن گئے ہیں اب بھی علحیدہ کمرہ تو نہیں ہے بچے کو دودھ پلانے کا مگر ہم اپنی میڈیم کے آفس میں جا کر آرام سے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے جبکہ شگفتہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک نجی بینک میں کام کرتی ہے 15 سال سے لیکن جب وہ بچے کو دودھ پلاتی ہے تو کوئی الگ کمرہ یا جگہ موجود نہیں ہے بینک میں وہاں ایک سٹور ہے جہاں سامان پڑا ہوا ہے تو مجبوراً بچے کو وہاں سٹور میں دودھ پلاتی ہے۔یا کبھی کبھار ہم مردوں سے کہہ دیتے ہیں تو وہ کمرہ خالی کرا دیتے ہیں اور ہم بچوں کو دودھ پلا دیتے ہیں کیونکہ بچے کے لیے ماں کا دودھ ضروری غذا ہے اور میرے بچے کی عمر بھی کا ماہ سے کم ہے۔
یاد رکھیں، دودھ پلانا ایک فطری اور اہم عمل ہے، اور آپ کو اپنے بچے کو جہاں بھی اور جب بھی ضرورت ہو دودھ پلانے کا حق ہے۔
عوامی مقامات پر دودھ پلانا ماؤں اور ان کے بچوں کے لیے ایک فطری اور ضروری عمل ہے۔ پاکستان میں، عوام میں دودھ پلانے سے متعلق قوانین اور سماجی اصول مختلف ہوتے ہیں۔ اگرچہ عوامی سطح پر دودھ پلانے کی ممانعت کے لیے کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے، تاہم کچھ خواتین کو ایسا کرتے وقت سماجی بدنامی یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، عوامی سطح پر دودھ پلانا ایک عورت کا حق ہے، اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام، کمیونٹیز اور خاندانوں کو چاہیے کہ وہ خواتین کو کہیں بھی، کسی بھی وقت دودھ پلانے کی حمایت اور اس کے قابل بنائیں۔
یہ ایک اہم چیلنج ہے جس کا بہت سی پاکستانی ماؤں کو سامنا ہے۔ ہوائی اڈوں، بس اسٹینڈز، شاپنگ مالز اور ریستوراں جیسے عوامی جگہوں میں مخصوص دودھ پلانے والے کمروں یا نجی جگہوں کی کمی کی وجہ سے عوام میں دودھ پلانا مشکل ہوسکتا ہے۔ یہ تکلیف، شرمندگی، اور یہاں تک کہ دودھ پلانے کو مکمل طور پر روکنے کے فیصلے کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ عوامی مقامات پر دودھ پلانے کے قابل رسائی کمرے فراہم کرنے اور دودھ پلانے والی ماؤں کی مدد کرنے کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کی جائے۔ کچھ ممالک نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قوانین اور اقدامات نافذ کیے ہیں کہ عوامی علاقوں میں دودھ پلانے کے لیے نجی جگہیں فراہم کی جائیں.
پاکستان دودھ پلانے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے بھی کام کرنا چاہیے مثلا
1. عوامی علاقوں میں مخصوص دودھ پلانے والے کمرے قائم کرنا.
2. کام کی جگہوں اور عوامی مقامات پر دودھ پلانے کے لیے دوستانہ پالیسیوں کو فروغ دینا.
3. عوام کو دودھ پلانے کی اہمیت اور مدد کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کرنا.
4. دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے نجی جگہیں فراہم کرنے کے لیے کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنا.
آئیے مل کر پاکستانی ماؤں اور ان کے بچوں کے لیے مزید معاون ماحول پیدا کرنے کے لیے کام کریں.