خیبر پختونخواصحتعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

پشاور میں نشئی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور جرائم میں اضافہ،شہری غیر محفوظ

حسام الدین

پشاور شہر میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں نشئی افراد مختلف علاقوں باچاخان چوک، فردوس پھاٹک، ہشتنگر ی پھاٹک، گلبہار، جیل کے سامنے  ریلوے پٹڑی، ٹاؤن اور حیات آباد کارخانوں میں موجود ہیں۔ جو شہریوں کے لئے خطرے کا باعث بنتے جارہے ہیں کیونکہ ان نشئی افراد کے ہاتھوں میں تیز دار آلات ہوتے ہیں جس کے ذریعے شہریوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نشئی افراد گھروں سے چوریاں، بجلی میٹر، گیس میٹر اور پانی کے پائپ وغیرہ توڑ کر چوری کرلیتے ہیں۔

جبکہ بڑے بڑے شاہراہوں اور فلائی اوورز پر لگے حفاظتی جنگلے تک یہ نشئی افراد نہیں چھوڑتے جس کے نتیجے میں شہر کو ایک مرتبہ پھران نشئی افراد نے یرغمال بنا لیا ہے جس سے شہری بھی عدم تحفظ کاشکار ہوتے جارہے ہیں۔

پشاور شہر کے مختلف علاقوں میں جہاں منشیات کی لت میں مبتلا افراد نے راہزنی کا راستہ اپنایا وہی شہر کے پوش علاقےحیات آباد میں چوری اور راہزنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

حیات آباد فیز فور کے رہائشی حاجی اظہر الدین نے بتایا کہ گزشتہ دنوں بندوق کی نوک پر ان کے پڑوسی کو گاڑی سے محروم کر لیا گیا تو اسی ہفتے ایک شخص سے لاکھوں نقدی چھین کر لے گئے۔

حیات آباد فیز سیون کے رہائشی اور سابقہ لوکل گورنمنٹ کے ملازم فیاض خان نے بتایا کہ ان کی گلی میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران پانچ گھروں سے نامعلوم نشئیوں نے چوریاں کی، کسی کے گھر میں نصب سی سی ٹی وی کیمرے لے اڑے تو کسی کے بجلی میٹر چوری کر  کے لے جاتے ہیں جبکہ بجلی میٹر کی تاریں کاٹ کر بھی لے جاتے ہیں۔

ان کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ جب گلی کاچوکیدار صبح ڈیوٹی کرکے چلا جاتا ہے تو ایک نشئی نے ان کے گھر میں گٹر کے سر چرا کر لے گئے جبکہ گلیوں میں نصب لوہے کے ڈنڈے جن پر گلیوں کے نمبر لکھے ہوتے ہیں، اکھاڑ کر چوری کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ متعلقہ تھانے کی پولیس برائے نام گشت کرتی رہتی ہے جبکہ کسی چور کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔

ادھر حیات آباد کے متعلقہ تھانے کے پٹرولنگ انچارج راضی خان نے بتایا کہ چوریوں میں ملوث زیادہ تر نشئی ہوتے ہیں جن کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تاہم تھانے میں وہ خود پر تیز دھار آلات سے وار کرکے خود کو زخمی کردیتے ہیں جن کا علاج پولیس کو اپنے پیسوں کرانا پڑتا ہے۔

تاہم ان کے خلاف وقفے وقفے سے کارروائیاں بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے کمشنر پشاور ریاض محسود کی سربراہی میں ایک دفعہ پھر سے ان نشئی افراد کی بحالی کیلئے پراجیکٹ شروع کرنے کافیصلہ کیا ہے جو پہلے بھی شروع کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام رک گیا ہے. جہاں ترقیاتی منصوبے التواء کا شکار ہے وہاں پشاور میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کیلئے بھی ایک پراجیکٹ شروع کرنے کافیصلہ کیا گیا تھا۔

اس وقت فنڈز کی عدم موجودگی کی وجہ سے پشاور میں نشئی افراد کی بحالی کیلئے کمشنر پشاور کی سربراہی میں پراجیکٹ شروع ہونے سے قبل ہی التوا کا شکار ہو گیا ہے۔ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی شہر میں نشئی افراد کے خلاف کارروائی شروع نہیں کی جا سکی اور نہ ہی انہیں پکڑ کر متعلقہ اداروں کو بھجوایا جاسکا ہے۔

اس پراجیکٹ کے تحت بحال ہونے والے نشئی افراد دوبارہ ان اداروں سے نکل کر نشے کی لت میں مبتلا ہوگئے اور اب ان کی تعداد غیرمعمولی طورپر بڑھ گئی ہے اور اس حوالے سے کمشنر پشاور کو ٹاسک بھی سونپا تاہم ذرائع کے مطابق مالی معاملات کے پیش نظر شہر میں نشئی افراد کی بحالی کا پراجیکٹ شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔ جس میں مزید طوالت پیدا ہونے کاامکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی کی حکومت نے 2022 کے دوران پشاور میں تین مرحلوں پر مشتمل منشیات کے عادی افراد کی بحالی اورانہیں دوبارہ زندگی کی طرف لانے کامنصوبہ تشکیل دیا تھا اور  اس منصوبے کیلئے ابتدائی مرحلے میں پانچ ہزار نشئی افراد کی بحالی کیلئے پانچ سو ملین روپے مختص کئے تھے۔ یہ رقم سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے خصوصی طورپر نشئی افراد کی بحالی کیلئے مختص کی اور اس حوالے سے خصوصی ٹاسک اس وقت کے اور موجودہ کمشنر پشاور ریاض محسود کو سونپ دیا تھا۔

اور ابتدائی مرحلے میں نشئی افراد کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی اور شہرکے مختلف علاقوں ہشتنگری، فردوس پھاٹک، سنٹرل جیل روڈ، حیات آباد، کارخانوں سمیت یونیورسٹی ٹاؤن اوردوسرے علاقوں سے نشئی افراد کو زبردستی اٹھا کر بحالی سنٹر میں داخل کرایا گیا جہاں انہیں تین سے چار ماہ علاج معالجہ کے بعد فارغ کردیا گیا۔

جن میں 1080 مریض مختلف اداروں سے صحت یاب ہوکر اپنے اپنے ورثاء کے حوالے کئے گئے۔ ان میں 44 مریض ایسے بھی تھے جن میں ایچ آئی وی مثبت پایا گیا تھا اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس کے مریض بھی شامل تھے۔ مہم وقتی طور پر کامیاب رہی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان بحال ہونے والے افراد میں اکثر و بیشتر نے دوبارہ نشہ شروع کردیا اور یوں اس وقت پشاورمیں ایک مرتبہ پھر گلی محلوں میں بھی نشئی افراد گھومتے نظر آرہے ہیں۔

ماہر نفسیات کا نقطہ نظر

پاکستان سائیکیاٹرک سوسائٹی اور سائیکیاٹرک فیڈریشن کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر سید محمد سلطان نے ٹی این این کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آئس، چرس اور ہیروئن کو کسی پودے سے نہیں بلکہ کیمیائی طور پر تیار کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں گردے، جگر اور پھیپڑوں کے ٹیشوز بہت متاثر ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس نشے میں مبتلا افراد کا وزن دن بدن کم ہوتا رہتا ہے اور وہ دماغی طور پر بالکل مفلوج ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آئس نشہ کرنے والے کا کوئی علاج موجود نہیں ہے جبکہ کسی بھی وقت کوئی بھی ناخوشگوار حرکت کرسکتے ہیں۔ آئس کے عادی افراد ہر کسی پر شک کرتے ہیں، انہیں برے خیالات آتے ہیں جو کہ بلکل بھروسے کے قابل نہیں ہوتے ہیں جبکہ یہ لوگ اپنے نشے کی لت کو پورا کرنے کےلئے چوری، ڈکیتی اور قتل بھی کر سکتے ہیں۔

جبکہ کمشنر پشاور ریاض محسود نے کہا کہ منشیات کے عادی افراد کو نشے سے روکنے کےلیے پراجیکٹ جلد شروع کر دیا جائیگا ۔

Show More

Hassam Uddin

حسام الدین صحافت میں 15 سال کا وسیع تجربہ رکھتے ہے۔ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی میڈیا تنظیموں کے ساتھ کام کیا ہے، جہاں انہوں نے پاکستان اور افغانستان میں جنگ اور دہشت گردی سے متعلق خبریں کور کی ہیں۔ ان کی مہارت میں پارلیمانی رپورٹنگ بھی شامل ہے۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button