سونا چاندی اور ایک فرسودہ سماجی رسم کی اصلاح
مولانا خانزیب
پرانے زمانے کے کھنڈرات میں سے سونا نکال کر راتوں رات امیر بننا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا اسی لئے تو علامہ ابن خلدون اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ پرانے زمانے کے نوادرات کو نکالنے کے پیچھے پڑتے ہیں تاکہ راتوں رات وہ امیر بن جائیں، درحقیقت وہ لوگ نکمے ہوتے ہیں، دنیا کے اور کسی کام کے نہیں ہوتے اور اپنی ساری عمر اس آس پر بیٹھ کر گزارتے ہیں کہ بس تھوڑی سی محنت کے بدلے اچانک کوئی خزانہ ملے اور وہ راتوں رات امیر بن جائیں۔
دنیا ”دارالکسب” اور ”دار المحنت” ہے، یہاں آپ نے ایک پلاننگ اور آئیڈیالوجی کے تحت دنیا کا شغل اختیار کرنا ہے اور رفتہ رفتہ محنت تجربہ اور لگن کی برکت سے آپ نے آگے جانا ہے۔ آپ نے اکثر بڑے سرمایہ داروں اور بڑے نوابوں رئیسوں کے بچوں کو دیکھا ہو گا جو ایک عرصہ کے بعد مفلوک الحال ہوتے ہیں جبکہ ایک وقت میں غریب ترین رہنے والوں کو دیکھا ہو گا کہ وہ امیر بن جاتے ہیں، یہ اس لئے کہ نوابزدے نکٹھوؤں کی طرح اپنے باپ دادا کی جاگیروں کو بیچ بیچ کر جینے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں جبکہ غریب خاندان کا بچہ دنیا میں آنکھ کھولتے ہی محنت و مشقت اور اپنی حرکت پر یقین کرتا ہے جس کے نتیجے میں اسے کچھ ہی عرصہ بعد محنت کا پھل ملتا ہے۔
زمانہ قدیم سے سونے کو بطورِ زیورات استعمال کیا جاتا ہے اور شادی کے موقعہ پر یہ ثقافتی روایت کی بنیاد پر جزولاینفک بن گیا ہے۔ مگر کچھ عرصہ سے اس کی قیمت میں بے تحاشا اضافے نے عام غریب طبقے کیلئے شادی بیاہ کے موقع پر سونے کی روایت کے اس لزوم نے بہت مشکلات پیدا کی ہیں بلکہ بہت سے غریب لوگوں کی شادی بیاہ کی رسم اس فرسودہ رسم کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے اور یہ ذمہ داری علماء کرام اور معاشرے میں موجود تمام سماجی مصلحین کی بنتی ہے کہ وہ سونے کی شادی بیاہ کی اس رسم میں تغیر لائیں۔
بہترین سماجی اور ثقافتی روایت وہ ہوتی ہے جو وقت و زمانہ کی ضروریات کے ساتھ تغیر پذیر اور اصلاح پذیر ہوتی ہو، سونے کی رسم کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس کو چاندی جیسے سستے دھات یا چائنہ مارکہ گولڈ میں تبدیل کیا جائے، سونے میں بند ہونی والی رقم سے بہو بیٹیوں کی دیگر معاشی مشکلات کو حل کیا جائے۔ اب آتے ہیں سونے کی دھات کے تاریخی پس منظر کی طرف اور یہ کہ یہ دھات ہر زمانہ میں اتنی محبوب اور قیمتی کیوں رہی ہے۔
سونا کو انگریزی میں ”گولڈ”، عربی میں ”ذہب”، پشتو میں ”سرہ” اور لاطینی زبان میں ”اورم” کہا جاتا ہے۔ اس کا رنگ شوخ سنہری ہوتا ہے، یہ ایک ملائم قسم کی دھات ہے، یہ زمین سے دیگر دھاتوں کے ساتھ ملے ہوئے ذرات کی صورت میں پائی جاتی ہے جسے بعد ازاں ریفائنری میں دیگر دھاتوں سے جدا کیا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسی نفیس قسم کی دھات ہے جس پہ موسمی اثرات اثر انداز نہیں ہوتے۔ اس پر عام تیزابیات اور الکحل اثرانداز نہیں ہوتے۔ اس کو پانی کی صورت میں تحلیل کرنے کے لئے ایکواریجیا کو استعمال کیا جاتا ہے جو کہ دو مختلف (نائٹرک ایسڈ (شورے کا تیزاب) ہائیڈرو کلورک (نمک کا تیزاب) تیزابوں کا مرکب ہوتا ہے۔ یہ باقی سب دھاتوں کے ساتھ مکس بھی ہو سکتی ہے اور بعد ازاں ان کو جدا جدا کرنا بھی ممکن ہے۔
سونا اور دیگر دھاتوں کے مرکب کو اگر تیز آگ میں پگھلایا جائے تو آہستہ آہستہ سونے کے علاوہ دیگر تمام دھاتیں جل جاتی ہیں۔ سونا اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ علم تاریخ، کیوں کہ قرآن اور دیگر مذہبی اور تاریخی کتابوں میں اس کا ذکر قدیم زمانہ سے ملتا ہے۔
دنیا کے مختلف علاقوں میں آثار قدیمہ سے بھی اس کی موجودگی کے شواہد ملتے ہیں اور ہر دور میں اس کی اہمیت مسلم رہی ہے۔ سونا دنیا کے کئی ممالک میں پایا جاتا ہے جن میں اکثریت مسلم ممالک کی ہی ہے اور ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تیل اور تانبہ کے علاوہ سونے کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔ دور افتادہ ضلع چاغی کے سرحدی علاقے سیندک میں گزشتہ تیس سالوں سے سونے چاندی اور کاپر کی مائننگ ہو رہی ہے۔ اس علاقے میں سونے چاندی اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
جب سے یہ دھات ملi ہے عام لوگوں کا اس پر یہ اعتماد رہا ہے کہ اس نے ہر وقت میں اپنی اہمیت وقیمت نہیں کھونی ہے، تجارتی مارکیٹ میں اعتماد کا وجود انتہائی لازم ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ سونا ہر وقت مارکیٹ میں ملتا ہے۔ اسی طرح اس کا بطور کرنسی کے استعمال بھی اسی مارکیٹ کے اعتماد کا مظہر ہے۔ سونے کو یہ تمام خصوصیات ہی ممتاز نہیں کرتیں، بلکہ اس میں ایک اور خصوصیت ہے جو اسے دوسرے عناصر سے ممتاز بناتی ہے۔ وہ ہے اس کا سنہرا رنگ۔
سونے کی کامیابی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ناقابلِ یقین حد تمام دیگر دھاتوں کے بنسبت انتہائی خوبصورت اور جاذب نظر ہوتا ہے۔
انسان نے سونا 8,000 سال قبل دریافت کر لیا تھا۔ 750 سال قبل از مسیح تک یعنی سونے کی دریافت کے سوا پانچ ہزار سال بعد تک انسان صرف سات دھاتوں سے واقف تھا۔
سونا: 8,000 سال قبل دریافت ہوا۔
تانبا: 6,200 سال قبل دریافت ہوا۔
چاندی: 6,000 سال قبل دریافت ہوئی۔ (اب تک دریافت ہونے والی تینوں دھاتیں تین الگ الگ رنگوں کی تھیں)۔
سیسہ: 5,500 سال قبل دریافت ہوا۔
قلعی: 3,750 سال قبل دریافت ہوئی۔
لوہا: 3,500 سال قبل دریافت ہوا۔ (اس کے ساتھ ہی کانسی کا دور ختم ہوا اور iron age شروع ہوا۔ کانسی تانبے اور قلعی کا آمیزہ ہوتی ہے)۔
پارہ: 2,750 سال قبل دریافت ہوا۔ یہ دھات مائع شکل میں ہوتی ہے۔
تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی میں آرسینک، اینٹیمنی، زنک اور
بسمت دریافت ہوئے۔
پلاٹینم سولہویں صدی میں میکسیکو میں ہسپانیوں نے دریافت کیا۔
8,000 سال قبل سونے کی دریافت کے بعد سے سترھویں صدی تک یعنی 7700 سال تک انسان صرف 12 دھاتوں سے واقف تھا۔ انیسویں صدی سے پہلے تک انسان صرف 24 دھاتوں سے واقف تھا جن میں سے 12 اٹھارویں صدی میں دریافت کی گئیں تھیں۔
اکیسویں صدی میں انسان 88 دھاتوں سے واقف ہے، جن کی مدد سے ہزاروں طرح کے مزید بھرت بنائے جاتے ہیں۔ لوہے کی ایجاد سے پہلے دریافت ہونے والی ساری دھاتیں (سونا،تانبا، چاندی، سیسہ اور قلعی) اتنی نرم ہوتی تھیں کہ ان سے کارآمد اوزار اور ہتھیار نہیں بنائے جا سکتے۔ لیکن 5000 سال قبل انسان یہ دریافت کر چکا تھا کہ تابنے اور قلعی کو ملانے سے جو دھات حاصل ہوتی ہے (یعنی کانسی) وہ ان دونوں اجزا سے کہیں زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اگر کانسی میں قلعی کی مقدار دس فیصد سے زیادہ ہو تو کانسی میں پھوٹک پن آ جاتا ہے یعنی چوٹ لگنے سے یہ تڑک کر ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لیے ایسی کانسی اوزار اور ہتھیار بنانے کے لیے تو موزوں نہ تھی مگر سکے بنانے کے لیے بہت استعمال ہوتی تھی۔ دو یا تین فیصد آرسینک یا اینٹیمنی ملانے سے کانسی کی سختی اور بھی بڑھ جاتی ہے اور ہتھیاروں کی دھار زیادہ پائیدار ہو جاتی ہے۔
سطح زمین پر لوہا بہت زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔ درحقیقت سطح زمین کے نزدیک مٹی کا پانچ فیصد لوہے پر مشتمل ہے۔ لیکن انسان کو لوہا حاصل کرنے میں دیر اس وجہ سے لگی کہ لوہا 1535 ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھلتا ہے جبکہ تین چار ہزار سال قبل استعمال ہونے والی بھٹیوں میں 1150 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا ٹمپریچر حاصل ہو سکتا تھا جو تابنے کو تو گلا سکتا تھا مگر لوہے کو نہیں کیونکہ تانبا 1083 ڈگری سینٹی گریڈ پر پگھلتا ہے۔
رفتہ رفتہ یہ معلوم ہوا کہ لکڑی کی بجائے کوئلہ جلا کر زیادہ ٹمپریچر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دھونکنی کی ایجاد سے بھٹی کا ٹمپریچر اور بھی بڑھ گیا اور اس طرح انسان لوہا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ سب سے پہلے ترکی میں 4 ہزار سال قبل لوہا استعمال ہونے لگا۔
اگرچہ چین میں کاسٹ آئرن 2500 سال پہلے بنا لیا گیا تھا مگر یورپ میں یہ سات سو سال پہلے بننا شروع ہوا۔
افریقہ کے کانوں سے بڑی مقدار میں سونا نکالا جاتا ہے عموماً سونا اور تانبا ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریہ میں شوقیہ طور پر سونا تلاش کرنے والے ایک شخص نے ساڑھے پانچ کلو وزنی سونے کی ڈلی دریافت کی تھی جسے ماہرین ایک حیرت انگیز واقعہ قرار دے رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس ڈلی کی قیمت تین لاکھ آسٹریلوی یا تین لاکھ پندرہ ہزار امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
اس نامعلوم شخص نے بالارات نامی قصبے میں بدھ کو ایک دھاتوں کی نشاندہی کرنے والے آلے کی مدد سے یہ ڈلی ڈھونڈی جو کہ زمین کے دو فٹ نیچے موجود تھی۔
مقامی ماہرین کے مطابق اس علاقے میں سونے کی تلاش کا عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن اتنے بڑے ٹکڑے کی دریافت شاذونادر ہی ہوتی ہے۔
حالیہ پانچ چھ مہینوں سے سونے کی قیمت انتھائی بڑھی ہے اور اضافے کا یہ غیر یقینی رجحان ممکن ہے کہ مزید بھی جاری رہے گا۔ کچھ ماہرین کے مطابق ممکن ہے کہ دسمبر تک سونے کی قیمت دولاکھ فی تولہ کے قریب ہوجائے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر کساد بازاری پیدا ہوئی۔ تجارتی سرگرمیاں انتھائی ماند پڑ گئ ۔تیل کی قیمتیں غیر یقینی حد تک گر گئیں۔ ایسے میں اپنی اقتصادی گراوٹ کو روکنے اور اپنی کاروباری مندی کو سھارا دینے کیلئے اکثر ممالک کے حکمران اور بڑے بڑے سرمایہ دار سونے کی خریداری میں لگ گئے جس کے نتیجے میں سونے کی مانگ میں انتہائی زیادہ طلب پیدا ہوئی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کی وجہ سے سونے کی قیمتیں مزید بڑھ رہی ہیں اور اس کی قیمت کے ٹھہراؤ میں ابھی تک غیر یقینی صورتحال موجود ہے۔
چونکہ دنیا کی کسی ملک کی اکانومی کو مستحکم کرنے میں سونے کے ذخائر بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ کرنسی نوٹ کے استحکام کے پیچھے بھی سونے کی موجودگی کی طاقت ہوتی ہے اس لئے جس ملک کے پاس سونے کا جتنا زیادہ ذخیرہ ہوگا اتنا ہی اسکی کرنسی عالمی سطح پر مستحکم ہو گی۔ چونکہ عالمی سطح پر امریکہ ایک بڑی اقتصادی قوت ہے ڈالر کا سکہ ساری دنیا پر چلتا ہے یہ اس وجہ سے کہ سونے کا سب سے زیادہ ذخیرہ بھی امریکہ کے پاس ہے۔
ذیل میں ہم دنیا کے کچھ ممالک کی تفصیل درج کرتے ہیں جن کے پاس سونے کے ذخائر بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ آئی ایم ایف، اور، ورلڈ گولڈ کونسل، کے مطابق اگست 2020 تک دنیا بھر میں سونے کے ذخائر رکھنے والے ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے جس کے پاس 8 ہزار 133 ٹن سونا موجود ہے جو دنیا کے کل سونے کے ذخائر کا 79 فیصد بنتا ہے۔ دوسرے نمبر پر جرمنی موجود ہے جس کے سونے کے ذخائر 3 ہزار 363.6 ٹن ہیں جبکہ تیسرے درجے پر اقوام متحدہ موجود ہے جو 2814 ٹن سونے کی مالک ہے۔ دیگر ممالک میں اٹلی کے پاس 2451.8 ٹن، فرانس 2436 ٹن، روس 2299.99 ٹن، چین 1948.3 ٹن، سویٹزر لینڈ 1040 ٹن اور جاپان کے پاس 765.2 ٹن سونے کے ذخائر موجود ہیں۔
ان کے بعد بھارت کا نمبر آتا ہے جو 657.7 ٹن ذخائر کا مالک ہے، ہالینڈ کے پاس 612.5 ٹن، ترکی 583 ٹن، ای سی بی 504.8 ٹن، تائیوان 422.7 ٹن، پرتگال 382.5 ٹن، قزاقستان 378.5 ٹن، ازبکستان 342.8 ٹن، سعودی عرب 323.1 ٹن، برطانیہ 310.3 ٹن اور لبنان 286.8 ٹن سونے کا ذخیرہ رکھتا ہے برطانیہ کے پاس 310 ٹن۔ لبنان کے پاس 286 ٹن، ورلڈ گولڈ کونسل کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان اس فہرست میں 44ویں نمبر پر موجود ہے اور اس کے سونے کے ذخائر 64.6 ٹن ہیں جو ملک کے مجموعی ذخائر کا بیس فیصد بنتا ہے۔