نسیم ولی خان عرف مور بی بی، 1936 سے 2021 تک
رفاقت اللہ رزڑوال
عالمی شہرت یافتہ پشتون سیاستدان، عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سربراہ اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان کی بیوہ، عوامی نیشنل پارٹی کی سابق صدر اور مور بی بی کے نام سے مشہور بیگم نسیم ولی خان طویل علالت کے بعد85 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں، مرحومہ اپنے آبائی گاؤں ضلع چارسدہ کے ولی باغ میں اپنے شوہر ولی خان کے پہلو میں سپردخاک کر دی گئیں۔ ان کی نماز جنازہ میں خیبر پختونخواہ کی سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیات، سول سوسائٹی اور صحافیوں سمیت عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
بیگم نسیم ولی خان نے قام پرست سیاست میں ایک اہم رول ادا کیا تھا لیکن کچھ عرصہ سے عارضہ شوگر اور بلڈپریشر سمیت دیگر امراض میں مبتلا تھیں جس کے سبب وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔
عوامی نیشنل پارٹی نے صوبہ بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور پارٹی کے ہر قسم سرگرمیوں کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بیگم نسیم ولی خان کی موت پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سمیت سابق صدر آصف علی زرداری، گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان، وزیراعلی محمود خان، قومی وطن پارٹی کے صوبائی صدر سکندر حیات خان شیرپاؤ، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور دیگر سیاسی قائدین نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے کہ نسیم کی موت سے جمہوری جدوجہد کو دھچکا لگا ہے اور ان کی وفات پر افسردہ ہوں۔
بیگم نسیم ولی خان کون تھیں؟
بیگم نسیم ولی خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کی قریبی سیاسی ساتھی تھیں اور خدائی خدمتگار تحریک میں ایک فعال کردار ادا کر چکی ہیں۔ وہ 24 جنوری 1936 کو ضلع مردان کے امیر محمد خان ہوتی کے گھر میں پیدا ہوئی تھیں۔ جب نیشنل عوامی پارٹی کے چیئرمین خان عبدالولی خان کی پہلی بیوی تاجو بی بی وفات پا گئیں تو مرحومہ نسیم کے والد امیر محمد خان ہوتی نے ولی خان کے بچوں کی کفالت کی خاطر ان کی شادی ولی خان سے کرا دی اور دونوں 1952 میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔
سیاست کے میدان میں کیسے آئیں؟
ٹی این این کے ساتھ بیگم نسیم ولی خان کی سیاسی زندگی اور جدوجہد پر بات کرتے ہوئے باچا خان ٹرسٹ کے کلچر ڈائریکٹر ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا تھا کہ ان کی وفات نے قام پرست سیاست میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے جس کا ازالہ شائد ہی ممکن ہو۔ انہوں نے کہا کہ بیگم نسیم ولی خان عرف مور بی بی نے اس وقت سیاسی میدان میں قدم رکھا جب 1975 میں رہبر تحریک خان عبدالولی خان کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں جعلی مقدمات کے تحت گرفتار کیا گیا بلکہ ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی بھی لگائی۔
ڈاکٹر خادم حسین کے مطابق اس وقت بلوچستان کی حکومت کو زبردستی ختم کروایا گیا اور پشتونوں کی پوری سیاسی قیادت کو جیل بھیج دیا گیا۔ مرحومہ ایک طرف سخت ریاستی دباؤ اور دوسری طرف قدامت پسند معاشرے کا مقابلہ کر رہی تھیں اور اسی جدوجہد کے نتیجے میں قانونی راستے اختیار کرتے ہوئے پشتون قیادت کو جیلوں سے نکال دیا۔
انہوں نے کہا کہ مرحومہ اپنی جدوجہد کے ذریعے برصغیر کی پہلی خاتون تھیں جو براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر رکن قومی اسمبلی بنیں اور چار مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں۔
باچا خان ٹرسٹ کے کلچر ڈائریکٹر نے بتایا، ”بیگم نسیم ولی خان نے اپنی سیاست سے احساسات اور شعوری پابندیوں کے بندھن کو توڑ ڈالا جس کے بعد کئی خواتین سیاست کے میدان میں آئیں جو آج سیاسی جماعتوں میں قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں۔”
باچا خان مرکز پشاور سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق انہیں خیبر پختونخوا کی پہلی منتخب رکن پارلیمنٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں پہلی بار انہوں نے 1988 میں چارسدہ پی ایف13 سے حصہ لیا اور خیبرپختونخوا (اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے) اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، اسی طرح اسی حلقے سے 1990 اور 1993 میں پی ایف 15 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ پھر دوبارہ 1997 میں پی ایف 15 چارسدہ سے صوبے کی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔
پریس ریلیز کے مطابق وہ چار مرتبہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی پارلیمانی لیڈر بھی رہی ہیں۔ بیگم نسیم ولی خان 1990 اور 1997 کے دوران صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی رہی ہیں۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل بیگم نسیم ولی خان نے اپنے بیٹے اسفندیار ولی خان کے ساتھ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر عوامی نیشنل پارٹی ولی کے نام پر سیاسی جماعت بنا رکھی تھی لیکن پھر جرگوں کے ذریعے اس پارٹی کو ختم کر دیا گیا تھا۔