‘دلی خواہش ہے علاقے کے تمام بچے اپنی مادری زبان پشتو پر عبور حاصل کرلیں’
نصیب یار چغرزے
خیبر پختونخوا کے سب سے پسماندہ ضلع تورغر کے تحصیل جدبا گاؤں کوز کلے میں ایک ایسا شاعر و ادیب موجود ہے جو علاقے کے بچوں کو بغیر معاوضہ کے پشتو املا اور خوشخطی سکھا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انکی دلی خواہش ہے کہ علاقے کے تمام بچے دیگر علوم کے ساتھ اپنی مادری زبان پر بھی عبور حاصل کرلیں۔
عبدالمجید امجد جو کئی دہائیوں سے شاعری کرتا آرہا ہے انکو پورے گاؤں میں یہ اعزاز بھی ان ہی کو حاصل ہے کہ جب تورغر کو ضلع کا درجہ نہیں دیا گیا تھا اس وقت انہوں نے اپنے بچے اسلام آباد پڑھائی کے لئے بھیج دیئے تھے تب تورغر میں تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا۔
عبدالمجید کہتے ہیں کہ تیس سال پہلے جو یہاں تعلیم کا کوئی نام و نشان نہیں تھا نہ ہی پورے علاقے میں کوئی سکول تھا تو میں علاقے کے نوجوانوں کو لکھنے اور پڑھنے کےلئے اپنے حجرے بلاتا تھا اس وقت سے اب تک ہزاروں شاگرد میرے ایسے ہیں جو سکول نہیں گئے ہیں لیکن لکھنا اور پڑھنا میں نے سکھایا ہے۔
عبدالمجید امجد نے کہا کہ آج کے دور میں صرف شاعر و ادیب ہی ایسے ہیں جو اپنی مادری زبان پشتو کو زندہ رکھنے کےلئے کام کرہے ہیں باقی تو حکومت نے ابھی تک پشتو کو لازمی مضمون کے طور پر بھی نصاب میں شامل نہیں کیا اور شاعر و ادیب کے علاوہ اور کوئی پشتو کو نصاب میں شامل کرنے کےلئے سنجیدہ ہیں۔
عبدالمجید کہتے ہیں کہ پشتو زبان کے زوال کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے اس لئے اپنے دکان اور حجرے پر تختی لگاکر یہ لکھ دیا کہ علاقے کا ہر بچہ جو بھی پشتو املا اور خوشخطی سیکھنا چاہتا ہے تو میں ان سے کوئی فیس نہیں لونگا جس کے بعد گاؤں کے کچھ بچے دکان پر آکر مجھ سے کہنے لگے کہ ہم پشتو لکھنا سیکھنا چاہتے ہیں تو میں نے ان کے لئے ٹائم ٹیبل بناکر کام شروع کردیا۔ ‘باقاعدگی سے میرے پاس اب پچیس سے تیس بچے مختلف اوقات میں آتے ہیں اور میں ان بچوں سے کوئی معاوضہ نہیں لیتا ہوں’ عبد المجید نے کہا۔
عبدالمجید امجد کا پشتو زبان کے ساتھ محبت کا اندازہ ان کے حجرے اور دکان سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے حجرے اور دکان کے دیواروں پر پشتو کے سینکڑوں اشعار نقش کئے ہیں.
مقامی صحافی رب نواز شاعر عبدالمجید امجد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ضلع بننے سے پہلے اسلحے کا بہترین کاریگر بھی جانا جاتا تھا جن کے ہاتھوں سے بننے والے اسلحے درہ آدم خیل میں خاصے مقبول تھے لیکن ضلع بننے کے بعد اسلحے کے کاروبار کو خیر باد کہہ دیا اور صرف قلم اٹھا کر لکھنا شروع کردیا جو کہ پسماندہ ضلع تورغر کےلئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔