افغانستانبلاگزقبائلی اضلاع

باجوڑ اور کنڑ کے درمیان تجارتی راستے ناواپاس کی بندش سے تجارت پر اثرات کا ایک جائزہ

مولانا خانزیب

 

افغانستان اور پختونخوا کے نئے اضلاع میں 313 راستوں سے افغانستان و وسطی ایشیا تک صدیوں سے آزادانہ تجارت وعام آمد و رفت ہوتی تھی۔ ان سینکڑوں راستوں میں سے سولہ بڑے راستے ہیں جنکو ماضی قریب تک تجارت و عام آمد و رفت کیلئے استعمال کیا جاتا تھا ان سولہ بڑے تجارتی راستوں میں باجوڑ میں ،ناوا پاس کا راستہ بھی شامل ہے جو افغانستان کے کنڑ صوبے کے سرحد پر واقع ہے۔
اس تاریخی راستے سے 326 قبل از مسیح میں، سکندر یونانی، محمود غزنوی ،چنگیز خان، اور، ظہیر الدین بابر، جیسے بڑے بڑے فاتحین بھی داخل ہوئے تھے جبکہ 1914 میں باچا خان نے یہاں پر واقع آزادی کے عظیم مجاھد مولانا نجم الدین المعروف اڈے صیب کے مرکز و تاریخی مسجد کا دورہ بھی کیا تھا۔
ناواپاس کی طرف پاکستان اور افغانستان میں دونوں طرف سڑک پختہ ہے ناواپاس افغانستان کے صوبہ کنڑ کے ساتھ ملحقہ ہے جبکہ صوبہ ننگرہار جلال آباد کی طرف یہاں سے ڈھائی گھنٹوں میں پہنچا جاسکتا ہے۔ ضلع باجوڑ تحصیل بر چمرکنڈ ناواپاس کا یہ تجارتی پوائنٹ ضلع مومند کے قریب ہونے کیساتھ باجوڑ سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن کے تجارت پیشہ لوگوں کے تجارت کا راستہ بھی تھا جبکہ ناواپاس پشاور سے دو گھنٹے کے مسافت پر طورخم کی طرح پورے پختونخوا کیلئے افغانستان آنے جانے کیلئے قریب ترین راستہ بھی ہے۔

باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ 26 چوٹھے بڑے راستے تھے مگر بدامنی کے نام پر اور چند سالوں سے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے سے یہ تمام راستے مکمل طور پر بند ہو گئے ہیں۔ دیگر تجارتی راستوں کی طرح ناواپاس کے راستے سے بدامنی کے نام پر پچھلے بیس سال سے تجارت اور ہرقسم کی آمد و رفت پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔
اس راستے کی بندش سے پاکستان اور افغانستان کی سائیڈ پر لاکھوں پختون بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اس راستے کو ہم فی الفور تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ عام آمد و رفت کیلئے ،طورخم ،چمن، انگور اڈہ ،غلام خان ،اور ،خرلاچی، کی طرح کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت پختونخوا کے نئے اضلاع کے مسائل کے حل کے حوالے سے ان بند راستوں کیلئے اقدامات اٹھائیں ۔ یہ علاقے دہشت گردی کے نام پر حالیہ وقت میں مکمل تباہ ہوئے ہیں یہاں کے لوگ روزگار کیلئے ملک کے دیگر شہروں کا رخ کررہے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر ان علاقوں سے لوگوں کا انخلاء ہورہا ہے لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ تمام بند تجارتی راستوں کو کھول کر یہاں کے لوگوں کو بہت آسانی کے ساتھ اپنے گھر کی دہلیز پر روزگار کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب ایک ہی قبیلے کے پختون آباد ہیں لہذا ان راستوں کو مزید اگر بند رکھا جاتا ہے تو یہ ان پختونوں کے معاشی قتل عام کے مترادف ہے۔
یہ ایک بڑا قومی ایشو ہے لہذا ناواپاس کے راستہ کھولنے کیلئے صوبائی اور قومی اسمبلی سمیت ہر فورم پر آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں اگر ان راستوں کو نہیں کھولا گیا تو اس کیلئے عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے جہاں یہ تجارتی راستے بند پڑے ہیں اس کے کھولنے سے حکومتی اقدامات کو عوامی سطح پر بڑی پذیرائی ملی گی۔
آج کی دنیا تجارت کی دنیا ہے عالمی سطح پر تمام ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ معاشی و تجارتی مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں ان ممالک کے تعلقات کی تلخی کا تمام خسارا پشتون بیلٹ کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے پختونخوا کے نئے اضلاع حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہوئے ہیں ان علاقوں کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے دیگر بہت سے اقدامات کیساتھ افغانستان کے ساتھ پختونوں کے زمانوں کے تجارت کو فروغ دینا بھی انتھائی اہمیت کا حامل ہے۔

ناواپاس کے راستے کے ذریعے زمانوں سے آباد دونوں جانب کے پختون آزادانہ طور پر کنڑ جلال آباد کابل اور وسطی ایشیاء کے ریاستوں تک تجارت اور آمد و رفت کرتے تھے 1980 میں ناواپاس سے کنڑ کے صدر مقام ،چغسرئ اور باجوڑ کے ناواگئ تک سڑک بنائی گئی جسکو 23 دسمبر 1989 کو پختہ کیا گیا۔ افغان وار کے دوران اس راستے سے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین باجوڑ آتے جاتے تھے جبکہ اس دور میں بڑے پیمانے پر اس راستے سے تجارت ہوتی تھی جنمیں بڑے پیمانے پر، چاول ، چینی، آٹا ، نمک ، اور پاکستان کے دیگر مصنوعات سمیت اشیاء خوردونوش کو پاکستان کی سائیڈ سے سپلائی کیا جاتا تھا جبکہ افغانستان سے سوویت یونین کی مصنوعات کیساتھ ایران کے پٹرولیم مصنوعات گیس سمیت قیمتی لکڑی کا بڑے پیمانے پر تجارت ہوتا تھا۔
دو طرفہ تجارت کا یہ سلسلہ 2005 تک جاری رہا اس کے بعد سرحد کے آر پار بدامنی کی وجہ سے یہ راستہ بھی بند ہوگیا جو امن و امان کی بحالی کے بعد بھی پندرہ سال بعد بند پڑا ہے۔ اب اس راستے کو اگر تجارت کیلئے آزاد کیا جاتا ہے تو پاکستانی مصنوعات کیلئے ایک بڑی منڈی ملے گی۔ جہاں کنڑ اور نورستان کیساتھ وسطی ایشیاء کے ریاستوں تک بھی اس کے تجارتی سرگرمیوں کو بڑھایا جاسکے گا اسی طرح باجوڑ قیمتی معدنیات سے مالا مال ہے ان معدنیات کو بھی ایک بڑی منڈی وسطی ایشیاء تک میسر آئیگی۔
اس راستے کے کھولنے سے امن وامان پر بڑے مثبت اثرات پڑینگے کیونکہ دونوں جانب ایک ہی قبیلہ ترکھانڑی کے لوگ آباد ہیں جہاں سماجی اور تجارتی تعلقات ہونگے وہاں اس کے مثبت اثرات لازماً سیاسی تعلقات پر بھی پڑسکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button