کالعدم تحریک لبیک کے احتجاج بارے علماء کرام کیا کہتے ہیں؟
رفاقت اللہ رزڑوال
مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ پُرتشدد مظاہروں پر ملک کے جید علمائے کرام نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیغمبر اسلام کے ناموس کے نام پر تشدد کرنا غیرشرعی ہے اور بحثیت مسلمان ایسے اقدامات سے گریز کرنا ضروری ہے جبکہ ملک کے بیشتر سیاستدانوں نے بھی ایسے اقدامات کو اسلام کی شناخت بدلنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
گزشتہ چار دن سے ملک بھر میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے پورے ملک میں پُرتشدد مظاہروں سے ریاست کو یرغمال بنا کر رکھا ہے، اطلاعات کے مطابق مظاہروں کے دوران دو پولیس اہلکاروں سمیت چھ افراد جاں بحق جبکہ 547 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
مظاہرین نے صوبہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے بڑے شہروں میں مظاہروں کے دوران اپنے ہاتھوں میں ڈنڈوں کے ذریعے کئی افراد کو یرغمال بنایا اور اُن سے اپنے حق میں نعرے لگوائے اور کئی افراد کو ڈنڈوں سے مار مار کر لہولہان کر دیا، ان احتجاجوں کے وجہ سے ہسپتالوں میں کورونا وائرس سے متاثرین کے لئے لے جانے والی آکسیجن گیس بھی تاخیر سے پہنچی اور ایمبولینسس میں پڑے مریض بھی روڈ بندش کی وجہ سے شدید تکلیف سے دوچار ہوئے لیکن اس پورے ہنگامہ آرائی میں ریاستی رٹ ناکام ہوتی نظر آئی اور بلآخر وفاقی حکومت تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئی۔
تحریک لبیک کے پُرتشدد مظاہروں پر علماء کا ردعمل
ملک کے جید علمائے کرام نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے نام پر کسی پر تشدد، لڑائی، مار کُٹائی اور املاک کو نقصان پہنچانا شرعاً خلاف ہے۔
پشاور میں مدرسہ حضرت عائشہ صدیقہ کے نگران مفتی عبدالجمیل نے ٹی این این کو بتایا کہ اگر کسی کو کسی سے اختلاف ہے تو اُس کیلئے مذاکرات کا راستہ موجود ہوتا ہے۔
"محمدﷺ پر زندگی قربان ہے لیکن اگر مبارک شخصیت کی ناموس کے نام پر ملک کی املاک اور کسی کی جان و مال کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو تو یہ شریعت کے خلاف ہے، اگر تشدد مسائل کا حل ہوتا تو آج کشمیر، فلسطین اور افغانستان کے مسائل حل ہو چکے ہوتے لہذا جب تک حکومتیں اور رعایا عمرانی معاہدوں کے تحت زندگی گزاریں گے تو مسائل ہوں گے۔”
مفتی جمیل نے کہا کہ پاکستان میں زندگی گزارنے کیلئے ریاست اور عوام کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ موجود ہے جسے آئین پاکستان کہتے ہیں اور اس میں حکومت اور اس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پرامن احتجاج کرنا سب کا حق ہے اور اُس پرامن احتجاج کے نتیجے میں مانگنے والے حقوق کی ادائیگی حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگا دی
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے وفاقی وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی پیر نورالحق قادری کے ساتھ جمعرات کو اسلام اباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی اور کہا کہ وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر انسداد دہشتگردی قانون کے تحت پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری آج وفاقی کابینہ نے دے دی اور بتایا کہ وفاقی حکومت تحریک لبیک کو تحلیل کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرے گی۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں قرار دیا گیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان دہشتگردی اور ملک کے خلاف کاروائی میں ملوث پارٹی ہے اور اس پر انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت پابندی لگا دی گئی۔
ذرائع کے مطابق پارٹی کے اہم رہنماؤں کے پاسپورٹس، اسلحہ لائسنسس، اثاثے اور پارٹی اکاونٹس بھی منجمد کئے جائیں گے۔
وفاقی حکومت کے فیصلے پر سیاسی تجزیہ کاروں کا ردعمل
پاکستان میں انتہاپسند تنظیموں پر باپندیاں لگانا نئی بات نہیں، حکومت نے ماضی میں کئی مذہبی تنظیموں پر پابندیاں لگائی ہیں لیکن پھر وہ دوسرے ناموں سے ابھر کر سامنے آئی ہیں۔
سیاسی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں نے وفاقی حکومت کے پابندی کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا، کہتے ہیں کہ صرف پابندی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ریاستی سطح پر انتہا پسند سوچ کا خاتمہ ضروری ہے۔
باچا خان مرکز کے کلچر ڈائریکٹر ڈاکٹر خادم حسین نے بتایا کہ حضرت محمدﷺ کی ناموس پر تمام مسلمانوں کی جان قربان ہے مگر گزشتہ 73 سالوں سے پاکستان میں مذہبی جماعتوں کو سیاسی یا تزویراتی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا گیا ہے جس کی براہ راست سزا عوام کو ان جیسے فسادات کی شکل میں ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتہاپسند جماعت پر پابندی لگانا خوش آئند عمل ہے "لیکن مجھے ریاستی سطح پر انتہاپسند سوچ کے خاتمے کے اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ریاست پرانی پالیسوں پر اب بھی عمل پیرا ہے جس کے تحت میڈیا، نصاب، اور خارجہ پالیسی میں موجود انتہاپسند بیانیے کا خاتمہ ناممکن لگتا ہے۔”
تحریک لبیک پر کیوں پابندی لگا دی گئی؟
تحریک لبیک پاکستان پر ایک ایسے وقت میں پابندی لگائی گئی جب تحریک کے سربراہ علامہ سعد حسن رضوی کو حکومت نے پاکستان سے فرانس کے سفیر کو بے دخل کرنے کے مطالبے پر گرفتار کر لیا۔
سعد حسن کے گرفتاری کے بعد لیبیک کے کارکنوں نے ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع کئے جس کے نتیجے میں جمعرات کو فرانس نے اپنے سفارتی عملے کو عارضی طور پر ملک چھوڑنے کا کہا ہے۔
فرانس کی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسلام آباد میں فرانس ایمبیسی کو ایمیل موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال فرانسیسی شہریوں کے فائدے میں نہیں لہذا سفارتی عملہ اور کمپنیاں محدود مدت کیلئے پاکستان چھوڑ دیں۔
پابندی کے بعد لبیک کے منتخب نمائندوں کا مسقبل کیا ہو گا؟
تحریک لبیک پاکستان الیکشن کمیشن کے ساتھ رجسٹرد پارٹی ہے جس کے 2018 کے عام انتخابات میں صوبہ سندھ کے اسمبلی کیلئے تین ارکان منتخب ہوئے ہیں، پارٹی کو کلعدم قرار دینے کے بعد اُن کے مستقبل کے بارے میں پشاور یونیورسٹی میں لا کالج کے پروفیسر اور آئینی ماہر پروفیسر ندیم فرید کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہے اور حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی پارٹی کو ای سی پی ڈی نوٹیفائی کر سکتا ہے جس کے بعد قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔
پروفسر ندیم فرید نے بتایا کہ ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے بعد انہی حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے اور کالعدم جماعت اُس میں حصہ نہیں لے سکتی البتہ اگر ڈی سیٹ ارکان آزاد حیثیت میں حصہ لینا چاہیں تو انہیں قانون اجازت دیتا ہے۔
مذکورہ پارٹی کے کردار اور سیاست پر دہشتگردی سے نمٹنے والے اداروں کا ردعمل
2017 سے اب تک حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان کُل پانچ معاہدے ہوئے ہیں، حکومتیں سرنڈر ہوتی رہیں اور سمجھوتے کرتی رہیں، اُس وقت کی اپوزیشن جماعتیں اس صورتحال کا فائدہ اُٹھا کر نفرت انگیزی میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں اور اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کرتی رہیں۔
2017 میں تحریک لیبک پاکستان نے اسلام آباد میں 17 دن تک دھرنا دیا جس کے خلاف حکومت نے کریک ڈاؤن شروع کیا اور اُسی کے ردعمل میں 6 مئی کو اُس وقت کے وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا جس کی زمہ داری تحریک لبیک کے کارکن نے قبول کی۔
اس حملے سے 6 ماہ قبل دہشتگردی سے نمٹنے کے ادارے نیشنل کاونٹر ٹیرازم نے ایک رپورٹ جاری کی تھی، رپورٹ میں تحریک لبیک پر پابندی کی سفارش کی گئی تھی اور حکومت کو پارٹی پر کڑی نگرانی کا کہا گیا تھا۔
نیکٹا رپورٹ کے مطابق معاشرے میں پہلے سے پرتشدد سوچ پائی جاتی ہے ایسے میں تحریک لبیک اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کا سامنے آنا تشویشناک ہے۔
نیکٹا نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ تحریک لبیک نے نہ صرف ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا بلکہ اسے تہس نہس کیا۔
نیکٹا کی رپورٹ میں اُس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت کے کئے گئے معاہدے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ایسے معاہدے مستقبل کیلئے تشویشناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
نیکٹا نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ تحریک لبیک کو میڈیا کے ذریعے اپنی سوچ پھیلانے کی اجازت نہ دی جائے اور اس حوالے سے مزید سختی لائی جائے۔
تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ
فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ جاری کیا تھا، فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھا تھا کہ نومبر 2017 میں تحریک لبیک نے فیض آباد پر دھرنا دیا، اس دھرنے نے اسلام آباد اور راولپنڈی کو مفلوج کر دیا، دھرنے کے قیادت نے ڈرایا، دھمکایا، گالیاں دیں، لوگوں کو اُکسایا اور نفرت کا پرچار کیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں خفیہ اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ شیخ رشید، اعجاز الحق اور پی ٹی آئی کے علما ونگ نے آڈیو پیغامات ریلیز کروائے اور غیر ذمہ دار سیاستدانوں کی طرف سے تشدد پر اُکسانے والی تقاریر کی گئیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ تحریک لبیک اپنے مظاہروں سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے، انہوں نے مذہبی جذبات کو اُبھارا، نفرت کی آگ لگائی، مظاہرین تشدد پر اتر آئے اور املاک کو تباہ کیا۔
فیصلے کے مطابق 12 مئی کے سانحے میں ملوث جو اعلٰی حکومتی عہدوں پر فائز تھے ریاست اُن کے خلاف کاروائی میں ناکام ہوئی، جس سے ایک بُری مثال قائم ہوئی جس سے دوسروں کو ہمت ہوئی کہ وہ تشدد کے ذریعے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کریں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے اور نیکٹا کی رپورٹ کے بعد بھی تحریک لبیک پاکستان چار دفعہ سڑکوں پر جتھوں کی شکل میں نکلی اور ہر بار پرتشدد مظاہرے کئے جن میں لوگوں کو یرغمال کیا، سرکاری اہلکاروں سمیت سویلین مارے گئے، جلاو گھیراو کے ذریعے املاک کو نقصان پہنچایا گیا لیکن بالآخر حکومت نے اس پارٹی پر پابندی لگانے کا فیصلے کیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاست نے صرف پارٹی پر پابندی لگا دی یا پرتشدد اور انتہاپسند سوچ کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات بھی اُٹھائے جائیں گے؟