”ہراساں کرنے والوں کو متنبہ کرتی رہتی ہوں تاہم بعض لوگ بہت ڈھیٹ ہوتے ہیں”
نسرین
”دوران ڈیوٹی ہراساں کرنے کے درجنوں واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن میں شور شرابا نہیں کرتی اور نا ہی شکایت کرتی ہوں بلکہ اپنے انداز سے ہراساں کرنے والوں کو متنبہ کرتی رہتی ہوں تاہم بعض لوگ بہت ڈھیٹ ہوتے ہیں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ بہت بری نظر سے دیکھتے ہیں حالانکہ میں ان کے پیاروں کی زندگی بچانے اور صحت بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہوں، ان کے اس رویے سے مجھے اپنے فرض کی ادائیگی میں چلنے پھرنے اور کام کرنے میں مشکل بھی ہوتی ہے تاہم میں اپنا فرض نبھائے جاتی ہوں۔” یہ کہنا ندا کا جو نرسنگ کی طالبہ ہیں۔
ندا اور ان کی ساتھی نرسنگ طالبہ اقراء ہر روز ہراسمنٹ پر مبنی واقعات سے گزرتی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی بات چیت میں اقرا نے بتایا کہ ہمارا لباس، جو کہ ہمارا یونیفارم ہے، ہی ایسا ہے کہ ہر کسی کی نظر ہم پر پڑتی ہے، ”اب اس کے اوپر ھم الگ سے چادر یا برقعہ تو نہیں اوڑھ سکتیں اگرچہ اسی یونیفارم نے ھمیں عزت اور تحفظ دے رکھا ھے اور ھمارے بلانے یا مخاطب کرنے کے لیے سسٹرز کا لفظ مختص کر رکھا ھے تاہم لوگوں کی سوچ اور رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔”
رواں برس خیبر پختون خوا میں خواتین کو ہراساں کرنے کے 100 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 30 واقعات میں سزائیں اور جرمانے کیے گئے جبکہ 69 کیسز تحقیقات کے مراحل میں ہیں، 65 کیسز کارروائی کے لیے محکمہ سائبر کرائمز کو بھیجے گئے ہیں جن میں 57 لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ہراساں کرنے کا کیس بھی شامل ہے۔
بی آر ٹی اسٹیشنز پر قائم کیے گئے نالج کارنرز سے بھی شکایات درج ہونا شروع ہو گئی ہیں جبکہ ہیلپ لائن کے ذریعے پانچ اور زبانی ایک تحریری درخواست دی گئی ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسیت رخشندہ ناز کے مطابق صوبائی سیکٹریٹ برائے نسداد ہراسیت میں باقاعدہ ڈیٹا بیس بنا دیا گیا ہے جس میں تمام ادروں میں ہراسیت کے واقعات، ان کی نوعیت، متعلقہ کمیٹیوں کی پوزیشن کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ھے جبکہ جن اداروں میں کمیٹیاں موجود نہیں ہیں ان کو نوٹسز اور سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اداروں میں سو فیصد کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں جبکہ بی آر ٹی اسٹیشنز پر قائم کیے گئے نالج کارنرز سے بھی شکایات درج ہونا شروع ہو گئی ہیں، اس حوالے سے پانچ زبانی اور ایک باقاعدہ تحریری درخواست دی گئی ہے۔
کالج آف ہوم اکنامکس پشاور کی پروفیسر ڈاکٹر کوثر تکریم کے مطابق ہراسمنٹ کے قانون کا فائدہ کچھ نہیں، ”یونیورسٹی میں آئے روز درجنوں واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن خواتین اپنے گھر والوں کی عزت کا خیال کرتے ہوئے چپ ہو جاتی ہیں اور آواز نہیں اٹھاتیں، معاشرتی رویے ایسے ہیں کہ لوگ بہرحال خواتین کو ہی موردالزام ٹھہراتے ہیں، خواتین کے چپ ہو جانے سے ان کی شخصیت اور تعلیم دونوں متاثر ہوتی ہیں۔
اس حوالے سے سماجی کارکن رابعہ ستار نے کہا کہ کوئی قانون اس وقت تک نفع نہیں دے گا جب تک اس کا مکمل نفاذ اور اس پر پورا عمل درآمد نا ہو، ”ہماری اقدار ایسی ہیں کہ ہراسمنٹ شکایت کے بعد خواتین کو جن معاشرتی رویوں کا سامنا ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہیں، اس قانون بارے بہت حد تک آگاہی دی جائے تاکہ نا صرف خواتین بلکہ مرد بھی اس سے آگاہ ہو سکیں اور اس قسم کی شرارتوں، شیطانیوں اور خواتین کے ساتھ چھیڑ خانیوں سے اور ہراساں کرنے سے باز رہیں۔”
غیرسرکاری تنظیم کی ملازمہ سائرہ مفتی کے مطابق قانون برائے انسداد ہراسیت سے متعلق آگاہی پھیلنے سے ہراسانی کے واقعات میں کمی آئے گی، ”قبل ازیں لوگ کہتے تھے کہ اگر عورت آواز اٹھاتی تھی تو اسی کی غلطی سمجھی جاتی تھی لیکن اب اس قانون کے بعد اگر عورت آواز اٹھاتی ھے تو مرد کی بھی بے عزتی ہو گی اس لیے اب مرد بھی چھیڑ چھاڑ اور جملے بازی اور اشارہ بازی میں محتاط رہیں گے۔”