”پرائیویٹ ریڈیو چینلز کو نوٹس، پیمرا کا کام ہے یا ضلعی انتظامیہ کا؟”
سلمان یوسفزئی
‘ہم پر اعتراض ہے کہ ہم ریڈیو شمال سے لوکل نیوز چلاتے ہیں اور جب ہمارے رپورٹر کسی علاقے کا وزٹ کر کے وہاں کے عوام کے مسائل ریڈیو پروگرام میں بیان کرتے ہیں تو یہ ان لوگوں سے برداشت نہیں ہوتا، کیونکہ علاقے کے لوگ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں اور یہاں پر جاری ترقیاتی منصوبوں کی بے ضابطگیوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔’
ان خیالات کا اظہار ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے اور ریڈیو شمال کے مالک اخونزادہ چٹان نے ضلع انتظامیہ کی جانب سے چند روز قبل باجوڑ میں چار لوکل ایف ایمز کی بندش کیخلاف پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
ریڈیو شمال ٹیم ممبران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریڈیو شمال غیرقانونی ایف ایم چینل نہیں ہے اور ان کے پاس وہ سارے ثبوت اور کاغذات موجود ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے ادارے کو قانونی ادارہ ثابت کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول کوئی بھی ادارہ غیرقانونی طور اپنی نشریات نہیں چلاسکتا جبکہ ریڈیو شمال 2012 سے ضلع باجوڑ میں اپنی نشریات چلا رہا ہے اور 14 اگست 2015 کو انہوں نے باقاعدہ طور پر اس ایم ایف ریڈیو سیٹیشن کا افتتاح کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں چونکہ اس زمانے میں سابقہ فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم نہیں ہوا تھا تاہم پھر بھی انہوں نے پیمرا کو ریڈیو سٹیشن کی رجسٹرڈ اور لائسنس حاصل کرنے کی درخواست کی تھی لیکن پیمرا نے لائسنس دینے کے بجائے ان کی فریکونسی رجسٹرڈ کردی اور انہیں باجوڑ میں نشریات چلانے کے احکامات دیئے تھے۔
چٹان کے مطابق پریس کانفرنس کامقصد عوام کے وہ خدشات اور پریشانی کو دور کرنا ہے جو ریڈیو شمال کی بندش کے باعث ان میں پھیل چکی ہیں کیونکہ جب ریڈیو سٹیشن کو بند کر دیا گیا تو اس روز کے بعد کچھ دوستوں کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ آپ شمال ٹیم کو اسلام آباد بلائیں، نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک روزہ بھوک کیمپ لگائیں، اس میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں، سپریم کورٹ بار، اسلام آباد بار، پاکستانی کی سطح پر میڈیا تنظیموں اور پریس کلب کو دعوت دیدے اور میڈیا کے ذریعے آپ اس بات کو واضح کریں کہ ریڈیو شمال کو کیوں بار بار بند کیا جاتا ہے۔
چٹان نے بتایا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ ریڈیو شمال کی نشریات کو بند کیا گیا ہے ان کے بقول اس پہلے بھی کئی مرتبہ ان کی نشریاتی ادارے کو تالا لگ چکا ہے کیونکہ وہ زمانہ ایف سی آر کا تھا جس کی وجہ سے نہ تو انہیں کسی قسم کا نوٹس دیا جاتا تھا اور نہ ہی وہ کسی قسم کی عدالتی کارروائی کرنے کے اہل تھے لیکن اب تو سابقہ فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکا ہے، اب تو سارے اختیارات ایک بندے کے ہاتھ میں نہیں ہیں، اس ملک میں ہر کام کیلئے ایک متعلقہ ادارہ ہوتا ہے اور میڈیا کیلئے بھی ایک ادارہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ریڈیو شمال غیرقانونی ادارہ ہے تو کیوں بار بار بند کر کے انہیں دوبارہ بحال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تاہم اس کے علاوہ فاٹا سیکٹریٹ کے انفارمیشن سیکرٹری نے بھی کئی بار شمال ریڈیو کا وزٹ کیا جبکہ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی بھی ریڈیو شمال کا دورہ کر چکے ہیں۔
چٹان کے مطابق فاٹا سیکرٹریٹ کے انفارمیشن سیکرٹری نے انہیں یہ بھی کہا ہے کہ آپ ریڈیو شمال کی بلڈنگ کو خالی کر دیں کیونکہ وہ وہاں ریڈیو پختونخوا کے سیٹ ایپ کو انسٹال کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمیں ڈی سی باجوڑ کی جانب سے کیوں نوٹس بھیجا گیا کیونکہ یہ کام تو پیمرا کا ہے اور پیمرا کو چاہیے تھا کہ وہ ہمیں نوٹس بھیجتے ہم اس نوٹس کو عدالت میں چیلنج کرتے اس کے بعد پتہ چلتا کہ ہم غیرقانونی ایف ایم کو چلا رہے ہیں یا ہمارا ادارہ قانونی نشریات چلا رہا ہے۔
واضح رہے کہ 30 مارچ کو ضلع باجوڑ میں اس موقف کے ساتھ 4 ایف ایم ریڈیوز سٹشنز کو اپنی نشریات بند کرنے کا حکم دیا تھا کہ انہوں نے محکمہ اطلاعات سے این او سی یعنی اجازت نامہ نہیں لیا ہے تاہم دوسری جانب چند ایک نے لوگوں ڈپٹی کمشنر کے اس موقف پر حیرانی کا اظہار کر کے اسے ان کی لاعملی گردان دی تھی کہ نجی ایف ایم چینلز کو محکمہ اطلاعات کے این اوسی کی نہیں بلکہ پاکستان ریگولیٹری اتھارٹی کے لائنس کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس حوالے سے محکمہ اطلاعات میں ضم اضلاع کے ریڈیوز سیٹشنز کے سپرانٹنڈنٹ محمد علی نے ٹی این این کو بتایا کہ ضم اضلاع میں پختونخوا ریڈیو نیٹ ورک سے منسلک ریڈیو کو ہی وہ این او سی جاری کر سکتے ہیں تاہم ہمیں یہ اختیار نہیں کہ ہم کسی پرائیویٹ ریڈیوز سٹیشنز کو لائسنس یا این اوسی جاری کریں کیونکہ پرائیویٹ ریڈیوز کو پیمرا کی جانب سے لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔
محمد علی کے مطابق وہ نہیں جانتے کہ ڈپٹی کمشنر باجوڑ فیاض شیرپاؤ نے کیوں پرائیویٹ ریڈیوز سٹیشن کو محکمہ اطلاعات سے این او سی لینے کا احکامات جاری کئے ہیں کیونکہ ابھی تک حکومت کی جانب سے انہیں کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ قبائلی اضلاع کے پرائیویٹ ریڈیوز سٹیشنز کو این اوسی جاری کریں۔