خیبر پختونخوا

چند عورتوں نے ملک یرغمال کیا ہوا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ

محمد طیب

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الآمین نے کہا ہے کہ آئین کے اندر اظہار رائے کا حق موجود ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کی ہر کوئی اس بہانے مذہب اور سالت نشانہ بنائے، عورت مارچ والے کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور ان لوگوں کا ایجنڈا کیا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں، چند عورتوں نے خواتین کے حقوق کے نام پر پورا ملک یر غمال کیا ہوا ہے، ان لوگوں کو فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے کیوں نہ اس مارچ کی انکوائری کو ایف ائی اے کے حوالہ کریں تاکہ مکمل رپورٹ سامنے آ سکے۔

یہ ریمارکس انہوں نے گزشتہ روز عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف دائر مقدمے کے خاتمے کے لیے دائر رٹ کے سماعت کے دوران دیئے۔

رٹ کی سماعت جسٹس روح الآمین اور جسٹس عتیق شاہ نے کی، اس دوران عورت مارچ کے منتظمین اور اُن کے وکیل پشاور ہائی کورٹ بار کے صدر خالد آفریدی اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ دوسری جانب ایڈووکیٹ ابرار حسین اور ایڈوکیٹ اجمل کے مہمند پیش ہوئے۔

عورت مارچ کے منتظمین نے رٹ میں موقف اختیار کیا ہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن پشاور سید شوکت اللہ شاہ نے توہین مذہب اور رسالت کے الزام میں گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو عورت مارچ اسلام آباد کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا جو کہ مقامی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور مذکورہ مارچ خواتین کے حقوق کے حوالے سے تھا اور اس کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔

اس دوران مخالف فریقین وکلاء نے عدالت کو عورت مارچ کے نعرہ بازی اور متنازعہ پوسٹر اور بینرز سے آگاہ کیا جس پر پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الآمین برہم ہوئے اور کہا کہ آئین کے اندر اظہار رائے کا حق موجود ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کی ہرکوئی اس بہانے مذہب اور سالت کو نشانہ بنائے، عورت مارچ والے کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور ان لوگوں کا ایجنڈا کیا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں، چند عورتوں نے خواتین کے حقوق کے نام پر پورا ملک یر غمال کیا ہوا ہے،ان لوگوں کو فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے کیوں نہ اس مارچ کی انکوائری کے لیے اس مسلے کو ایف ائی اے کے حوالہ کریں تاکہ مکمل رپورٹ سامنے آ سکے۔

فاضل جج نے مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے۔

واضح رہے کہ 8 مارچ کو اسلام آباد میں عورت مارچ ہوا تھا جس میں شرکاء نے مذہب، رسالت اور حضر ت عائشہ رض کی شان میں گستاخانہ نعرہ بازی ہوئی تھی اور توہین امیز پوسٹر، پلے کارڈز اور بینرز کی نمائش ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ 31 مارچ کو عورت مارچ منتظمین کیخلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے پر مقامی عدالت نے ایس ایچ او تھانہ شرقی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا تھا۔

قبل ازیں 26 مارچ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پشاور سید شوکت اللہ شاہ نے اسلام آباد عورت مارچ میں مذہب، رسالت اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخانہ نعرہ بازی کرنے، توہین آمیز بینرز اور پوسٹرز کی نمائش کرنے کے پر تھانہ شرقی پشاور پولیس کو عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button