بھارت سے تجارتی تعلقات کا انقطاع، ماہرین کیا کہتے ہیں؟
رفاقت اللہ رزڑوال
جمعرات کو وفاقی حکومت کے نو منتخب وزیر خزانہ حماد اظہر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران ہندوستان سے تجارت کرنے کا اشارہ دیا اور کہا کہ اکنامک کوآرڈینیشن کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ ہندوستان سے کپاس اور چینی درآمد کی جائے گی جس کی سمری پر وزیراعظم عمران نے دستخط کئے ہوئے ہیں لیکن بعد میں وفاقی کابینہ نے ہندوستان سے تجارت کے فیصلے کو موخر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیر میں 5 اگست 2019 کے فیصلے کو واپس لے کر اُس کی آئینی حیثیت برقرار رکھے، ”آرٹیکل 370 کی بحالی تک بھارت کے ساتھ کوئی تجارت نہیں ہو سکتی۔”
کابینہ نے فیصلے کو موخر کرتے ہوئے ہندوستان کی جگہ افغانستان اور وسطی ایشیاء کے ممالک سے کاٹن درآمد کرنے کا کہا ہے۔
افغانستان اور سنٹرل ایشیاء کے ممالک سے کاٹن اور چینی کی درآمدگی کے فیصلے پر خیبر پختونخواہ کی بزنس کمیونٹی نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر افغانستان کے راستے تجارت کو مزید تقویت مل گئی تو ہمسایہ ممالک کے ساتھ نہ صرف تعلقات اچھے رہیں گے بلکہ خیبر پختونخواہ میں کاروبار پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی بات چیت کے دوران صوبہ خیبر پختونخواہ سے ٹیکسٹائل صنعتکار اور گدون چیمبر آف کامرس کے رُکن تیمور شاہ نے ہندوستان سے کاٹن کی مد میں تجارت نہ کرنے کے فیصلے کو سراہا اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان افغانستان کے مقابلے میں کاٹن پروڈکشن میں سب سے بڑا ملک میں ہے لیکن اگر ہندوستان سے کاٹن کی برآمد شروع ہوئی تو پورے ملک کے کاٹن کاشتکار بے روزگار ہو جائیں گے، ‘ہندوستان سے کاٹن کی درآمد ذاتی طور پر میرے لئے فائدے کا سودا ہے کیونکہ اس کی مقدار زیادہ اور قیمت کم ہے لیکن پاکستان کے کاشتکار کیلئے نقصان کا باعث ہو گا۔”
اس سوال کہ ‘افغانستان سے کاٹن برآمد کرنے پر خیبر پختونخوا کے کپڑے کی پیداوار پر کیا اثرات ہوں گے، انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں ٹیکسٹائل کے 13 کارخانے موجود ہیں اور ان کا زیادہ تر انحصار صوبہ پنجاب میں پیدا ہونے والے کاٹن پر ہوتا تھا، اب چونکہ پاکستان کی پیداوار بہت کم ہوئی ہے تو افغانستان کی امپورٹ سے صوبے پر بہت کم حد تک مثبت اثرات ہوں گے کیونکہ پاکستان کی ضرورت 22 کروڑ 40 لاکھ کلوگرام ہے اور افغانستان سے 5 کروڑ 60 لاکھ کلوگرام کاٹن درآمد ہوتا ہے۔
تیمور شاہ نے کہ کہا کہ نوے کی دہائی میں کاٹن کی پیداوار میں پاکستان دُنیا کا دوسرا بڑا ملک تھا مگر آج چھٹے نمبر پر ہے، انہوں نے کہا کہ ایک طرف کاٹن کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف کاٹن کی تخم کی اعلٰی قسم اور پیداوار کے سائنسی طریقوں سے کاشتکار بے خبر ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی تجارت کی مشترکہ تنظیم پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنوینئر ضیاالحق سرحدی نے بتایا کہ ہندوستان کے ساتھ تجارت ہندوستان کے مفاد میں زیادہ اور پاکستان کی فائدے میں کم ہے، ”اگر افغانستان سے تجارت میں آسانیاں پیدا کی جائے تو نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات بلکہ عوام کی معاشی حالات اور کاروبار بھی بہتر ہو جائے گا۔”
کاروبار کی مد میں دو ممالک کے درمیان سیاسی اور کچھ مسائل پر اختلافات مدنظر رکھنا ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب میں یونیورسٹی آف پشاور کے اکنامک ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ضلاکت خان کا کہنا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے دو مخالف ممالک کے درمیان اپنے اختلافات کو پس پُشت ڈالنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ دُنیا بھر میں کوئی ایسا ملک نہیں جو تمام ضروریات کی پیداوار میں خودکفیل ہو، یہی صورتحال پاکستان کی بھی ہے اور اکثر شہریوں کے استعمال کی اشیاء بیرون ممالک سے منگوانا پڑتی ہیں۔
ان کے مطابق ہندوستان سے تجارت کرنا کوئی معیوب نہیں لیکن کشمیر کے مسئلے کو بھی حل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
کابینہ نے ہندوستان کے ساتھ تجارت کے فیصلے کو کیوں موخر کیا؟
جب 1947 میں برصغیر پاک و ہند کا بٹوارہ ہوا تو مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ سر اُٹھانے لگا جس پر دونوں ممالک کے درمیان جھگڑے بھی ہوئے، ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 میں مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا جبکہ 5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے مذکورہ آرٹیکل کے خاتمے سے کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کر دی اور اُسے ہندوستان کا حصہ قرار دیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر پاکستانی حکومت نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اُس کی مذمت کی اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ حکومت ہند کا یہ اقدام یو این کے 1948 کے اُس فیصلے کے خلاف ہے جس میں کشمیریوں کو اپنے حق خود ارادیت کا اختیار دیا تھا۔