‘مسائل بڑھنے لگے اب میں کاروبار چھوڑنے کا سوچ رہا ہوں’
زاہد ملاگوری
‘پہلے سب کچھ اچھا چل رہا تھا مگرجوں ہی وقت گرزتا گیا ، حالات بدلنے لگے اور ہمارے مسائل بڑھنے لگے اب میں کاروبار چھوڑنے کا سوچ رہا ہوں کیونکہ ہم نے کافی سرمایہ لگایا لیکن اس سے ملنے والا منافع نہ ہونے برابر ہے’
ملک ماہید کا تعلق ضلع خیبر ملاگوری ہے جوکہ پیشے کے لحاظ سے صنعت کار ہے 2001 میں میٹرک پاس کرنے بعد انہوں نے بڑے بھائی کے ساتھ ماربل کارخانے میں کام شروع کیا اور بھائی کا ہاٹھ بٹھانے لگا۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ماہید گل نے بتایا جب انہوں نے بھائی کے ساتھ کاروبار سنبھالی تو اس وقت ان کی مالی پوزیشن کافی مستحکم تھی کیونکہ اس زمانے میں بجلی کے بل کم ہوا کرتے تھے اس کے علاوہ حکومتی ٹیکسس نہ ہونے کے برابر اور سنگ مرمر کے چٹان انتہائی آرزاں قیمت پر ملتے تھے اور ہمیں خیبرپختونخوا سمیت پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں سے ماربل سپلائی کرنے کے آرڈرز آتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ کاروبار میں منافع ہونے کے بعد انہوں نے اپنے ماربل کارخانے میں جدید مشنری لگائی مگر کچھ عرصہ بعد بجلی کی بل بڑھنے کے ساتھ کارخانے میں نکاس آب کا مسلہ پیش آیا جبکہ ملک میں منگائی کی وجہ سے ٹرک کرایوں ، چٹانوں کی نرخ میں اضافہ اور بے تحاشہ ٹیکسوں کے باعث ان کے کاروبار پر منفی اثر پڑا اور وہ اپنے کاروباری مستقبل کے بارے میں کافی فکرمند ہوگئے ہیں۔
ایک اور مقامی ماربل صنعت کار روزی گل بھی اپنے کاروبار سے مایوس ہوچکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آٹھ گھنٹے کی بجلی پر وہ اپنا کام ختم نہیں کرسکتے تاہم اس کے باوجود وہ ہر ماہ دو لاکھ روپے کا بل جمع کرتے ہیں جوکہ بہت زیادہ ہے۔
دو ماربل کارخانو کے مالک روزی گل کے مطابق ان کے ساتھ کارخانے میں 10 مزدور کار کررہے ہیں جن کا ماہانہ چرچہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ بنتا ہے جس سے 10 گھرانوں کا چولہا جلتا ہے لیکن اگر یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا تو وہ کارخانے بند کرنے پر مجبور ہوجائنگے۔
ملک روزی گل نے کہا کہ ملاگوری میں 278 ماربل فیکٹریاں ہیں جس میں 2600 سے زائد مزدور کام کرتے ہیں مگر حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے علاقے میں ماربل صنعت کافی متاثر ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملاگوری کے سنگ مرمر ملک بھر میں مشہور ہے اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے مزار میں بھی ملاگوری کے سنگ مرمر لگے ہوئے ہے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت دوسرے علاقوں میں ماربل سٹی بنانے کے دعو یٰ کررہی ہے مگر موجود ہ کارخانوں کی یہ حال ہے کہ مالکان دیوالیہ ہورہے ہیں۔
انہوں نے بتا یا کہ گذشتہ روزڈپٹی کمشنر خیبر اور ڈائریکٹر جنرل ماحولیات نے ماربل کارخانوں کا دورہ کیا جس میں انہوں نے ماربل کارخانوں سے نکلنے والی فضلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور مالکان کو 10 دن کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر کارخانوں سے نکلنے والے نکاس آب کارخانے سے باہر نہیں آنے دے جوکہ انتہائی مشکل کا م ہے کیوں کہ مالکان کے پاس اس سے سنبھالنے کیلئے کوئی بندوبست نہیں ہے۔
اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر خیبر منصور آرشد نے ٹی این این کو بتا یا کہ ان مالکان کے مسائل کے حل کے لئے رواں ماہ میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا جارہا ہے تاکہ ان کے مسائل سنے جاسکیں اور اس کے حل کیلئے حکام بالاسے بات چیت ہوسکیں۔
نکا س آب مسئلہ کے حوالے سے انہو ں نے بتایا کہ ماربل فیکٹری نکلنے والے فضلے مواد سے صحت پر بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ ماربل فیکٹریوں سے نکلنے والے مواد سے ماحولیاتی آلودگی پھیل رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ،چیف سیکر ٹری اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے احکامات پر علاقہ کی دورہ کررہے ہیں۔
انہوں نے مقامی انتظامیہ کو واضح احکامات جاری کردیئے گئے ہے کہ وہ ماربل فیکٹریوں کے مالکان کو 10دن میں کارخانے کے اندر ریسئیکلنگ کی بندوبست کریں اور تمام مالکان سے ملاقات کرکے اس پر آمادہ کریں جبکہ مقررہ مدت کے بعد کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس زہریلے مواد سے پینے کے صاف پانی بھی قابل استعمال نہیں ہے۔ٹی این این سے اپنے گفتگو میں ڈائریکٹر جنرل برائے ماحولیات ڈاکٹر امجد علی خان نے کہا کہ وہ کاروبار کے خلاف ہر گز نہیں ہےمگر ماربل فیکٹریوں سے باہر کے علاقوں میں فضلہ کا باہر آنا قانونی جرم ہے۔
انہوں نے مقامی ماربل فیکٹریوں کے مالکان سے اپیل کی کہ وہ نکاس آب کی بندوبست ماربل کارخانے کے چار دیواری کے اندر کریں تاکہ یہ مسئلہ مستقل طور پر حل ہوسکیں۔