خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘د خویندو ادبي لخکر’ کے زیراہتمام چار کتابوں کی تقریب رونمائی

رفاقت اللہ رزڑوال

ہفتہ کو پشاور میں خیبر پختونخواہ کی خواتین شعرا کی تنظیم ‘د خویندو ادبي لخکر’ کے زیراہتمام تقریب میں خواتین مصنفوں کی چار کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی۔ تقریب میں پشتو زبان کے معروف شاعر پروفیسر اباسین یوسفزئی کو صدارتی ایوارڈ کے لئے نامزد ہونے پر مبارک باد دی گئی۔ تقریب میں مرد و خواتین شعراء و ادباء، نوجوانوں، صحافیوں اور گلوکاروں نے شرکت کی۔

‘د خویندو ادبی لخکر’ جسے مختصر الفاظ ”خال” کے نام سے جانا جاتا ہے، خیبر پختونخواہ کی خواتین محققین، مصنفوں اور شعرا کی نمائندہ تنظیم ہے جس میں نوجوان خواتین کی شاعری، تحقیق اور تصنیف کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے۔

تقریب کے موقع پر مرد و خواتین شعرا نے مشاعرے کے ساتھ، نثر اور تخلیق کردہ تحاریر کو ناظرین کے سامنے پیش کیا۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں خال کی منتظمہ اور مصنفہ کلثوم زیب نے بتایا کہ آج کی تقریب دو نکات پر مبنی تھی، ایک یہ کہ امسال 23 مارچ کو پشتو زبان کے معروف شاعر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کو صدارتی ایوارڈ کیلئے نامزد ہونے پر مبارک باد اور خراج تحسین پیش کرنا اور دوسرا یہ کہ پروگرام میں خواتین کی شاعری کی دو اردو اور دو پشتو زبانوں کی کتابوں کی تقریب رونمائی کا انعقاد کرنا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ مصنفہ ڈاکٹر صبا خان کی ‘محب ہو صبا جیسی’ اور ‘بندھن’ (افسانہ)، ساجدہ مقبول تنہا کی ‘خکالو’ اور سیدہ شبنم کی ‘دا خبري مي په زڑه دي’ کی رونمائی ہوئی۔

تقریب میں کرونا وباء کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے محدود شرکا کو دعوت دی گئی تھی، انہوں نے کہا کہ مذکورہ کتابوں کی اشاعت 2018 میں ہوئی تھی مگر کرونا وباء کی وجہ سے تقریب رونمائی تاخیر کا شکار ہوئی۔

کلثوم زیب نے بتایا کہ ان کی تنظیم میں خیبر پختونخواہ کے دیگر اضلاع سمیت افغانستان سے تعلق رکھنے والی تقریباً 60 خواتین شعرا کی ممبر شپ موجود ہے مگر تقریبات میں صرف 30 تک خواتین شرکت کر رہی ہیں جس کی وجہ معاشرے کی جانب سے دباؤ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تخلیق کی صفت اللہ تعالی کی ہے اور اُسی تخلیق کا کچھ حصہ خاتون کو دیا گیا ہے جو انسان کو جنم دیتی ہے۔ کہتی ہیں کہ خواتین میں ‘لطافت’ کا احساس زیادہ پایا جاتا ہے اور پشتو ٹپہ کے حوالے سے بھی خواتین نے نام پیدا کیا ہے تو کیوں نہ ہم اُن خواتین کی حوصلہ افزائی کریں۔

"معاشرے کی اُن تمام مقتدر قوتوں سے درخواست ہے کہ مثبت کاموں میں اپنی خواتین کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ علمی لحاظ سے ایک زرخیز معاشرہ خواتین کے بغیر ادھورا ہے”۔

کلثوم زیب کا کہنا ہے کہ تنظیم بنانے کا مقصد یہی تھا کہ نوجوان خواتین شعرا کی تخلیقات، افکار اور شاعری کو معیار کے مطابق بنانا ہے۔

تقریب کے موقع پر خال کی جانب سے اباسین یوسفزئی کو صدارتی ایوارڈ کیلئے نامزدگی پر پھولوں کا ہار پہنایا گیا۔
پروفیسر اباسین نے خال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خواتین شعرا کو پیغام دیا کہ وہ اپنی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ لینے کیلئے مرد و خواتین کے اجلاسوں میں شرکت کریں جس سے اُن کے کلام کی کمی اور کوتاہیوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ادوار میں خواتین کے اظہار پر معاشرتی دباؤ زیادہ تھا مگر موجودہ وقت میں خواتین تعلیم یافتہ بن چکی ہیں اور زندگی کا اصل مقصد جان چکی ہیں۔

"میرے خیال میں سوسائٹی کو شعور دینے میں مرد اتنا حصہ نہیں ڈال سکتا جتنا ایک خاتون کر سکتی ہے کیونکہ وہ خود ایک پورا خاندان ہے۔”

تقریب میں موجود خواتین شعرا نے اپنے اپنے کلام بھی پیش کئے اور شرکاء سے خوب داد وصول کی۔

پشاور یونیورسٹی کے پشتو ڈیپارٹمنٹ کی لیکچرار فرزانہ رسول نے خواتین کی ادبی محفلوں میں کم شرکت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی شرکت 1 فیصد سے بھی کم ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے سماجی اور معاشرتی دباؤ اور قدامت روایات نے خواتین کو جکڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین اپنی گھریلوں ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ چاہتی ہیں کہ وہ تخلیق اور تحقیق کریں، اگر ان کی حوصلہ افزائی اور والدین کی طرف سے حمایت ملے تو وہ معاشرے کی ذہنی اور شعوری ترقی میں برابر حصہ ڈال سکتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button