خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

اے این پی کے سابق صوبائی ترجمان صدرالدین مروت انتقال کر گئے

غلام اکبرمروت

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سابق صوبائی ترجمان ایڈوکیٹ صدرالدین مروت انتقال کر گئے ہیں، بقول شاعر

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

لکی مروت 1992 سے پہلے ضلع بنوں کی تحصیل تھی۔ قیام پاکستان سے قبل یہاں خان عبدالغفار خان، جواہر لال نہرو اور گاندھی آتے رہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں لوگوں کی اکثریت کانگریس میں شامل تھی۔ بعد میں یہی لوگ خدائی خدمت گار تحریک کاحصہ بنے۔

صدرالدین مروت 10 مارچ 1960 کو سرائے نورنگ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر بنوں روڈ کے کنارے واقع گاؤں ممہ خیل میں نظر دین خان کے گھر پیدا ہوئے۔

ان کے والد نظر دین خان اور چچا غلام سرور خان خدائی خدمت گار تھے اس لئے خدائی خدمت گاری اور باچا خان کا فلسفہ ان کی گھٹی میں شامل تھا۔ وہ دو بہنوں اور چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔

ان کے بھائیوں میں ڈاکٹر عبدالرحیم سابق وائس چانسلر بنوں یونیورسٹی، نصیر الدین ممبر ورکرز ویلفیئر فنڈ اسلام آباد اور محمد دین (واپڈا) شامل ہیں۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم سرائے نورنگ میں حاصل کی، 1976 میں میٹرک کیا پھر ایف اے اور بی اے کیلئے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں میں داخلہ لیا اور یہاں سے 1980 میں بی اے کیا۔

اس دوران وہ طلبہ سیاست میں سرگرم ہوئے اور کرم سٹوڈنٹس فیڈریشن بنوں کی صدارت کیلئے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی طرف سے امیدوار تھے اور بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوئے۔

بی اے کرنے کے بعد گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے داخلہ لیا اور گومل یونیورسٹی میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بنے۔ زمانہ طالب علمی سے طلبہ حقوق کیلئے میدان میں اترے تھے اور سرگرم رہے۔

1982 میں گومل یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماسٹر ڈگری لینے کیلئے پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1986 میں ایم اے پولٹیکل سائنس کی ڈگری حاصل کی، پشاور یونیورسٹی میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی صدر بنے۔

ایڈوکیٹ صدر الدین مروت پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کامیاب ترین صوبائی صدر رہے۔ وہ باچا خان کی وفات کے وقت یعنی 1988 میں بھی صوبائی صدر تھے، انہوں نے جنرل ضیاءالحق کے دور آمریت میں 40 دن جیل کاٹی۔ اس کے بعد بھی کئی بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والوں میں پہلی بار انہوں نے ایوارڈ تقسیم کئے۔ یہ ایوارڈ رہبر تحریک خان عبدالولی خان کے ہاتھوں پشاور کے تاریخی گور گھٹڑی ہال میں 1989،90 میں تقسیم ہوئے جس سے خدائی خدمت گار تحریک اور پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں ایک نیاجذبہ اور ولولہ پیدا ہوا۔

ان کے دیرینہ دوستوں (کامریڈز) میں میاں افتخار حسین، ایوب اشاڑے، پی ٹی آئی کے ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی، اے این پی برطانیہ کے صدر محفوظ جان، ادریس خان تھانہ، حسین شاہ یوسفزئی، خورشید علی بٹ خیلہ، حنیف شاہ مروت، بشیر پختونیار، رشید افغانی، صمد خان بنوں، کریم محسود اور دیگر شامل ہیں۔

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صوبائی صدارت سے سبکدوشی کے ساتھ ہی 1990 مین عوامی نیشنل پارٹی، جو باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک کا تسلسل ہے، میں شامل ہوئے۔

ایڈوکیٹ صدر الدین مروت 10 نومبر 1989 کو یاسمین ضیاء سے شادی کے بندھن میں بندھ گئے جس سے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے ارسلان خان نے اسلامیہ کالج پشاور سے پولیٹیکل سائنس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ دوسرے بیٹے وردان خان نے گزشتہ ہفتے لندن (برطانیہ) سے قانون کی ڈگری حاصل کی جبکہ بیٹی نین تارا نے ایبٹ آباد سے بی ڈی ایس (بیچلر آف ڈینٹل سرجن) کیا ہے۔

بدامنی کے دوران بھی عوام سے رابطہ جوڑے رکھا

وہ سال 2001 سے سال 2019 تک ضلعی صدر رہے۔ کئی بار پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے امیدوار رہے۔ انہوں نے ہ رحال میں پارٹی جھنڈے کو سربلند رکھا۔ جب ملک بھر بالخصوص خیبر پختونخوا میں بدامنی کی لہر آئی تو انہوں نے اس دوران بھی عوام سے رابطہ جوڑے رکھا۔ نامعلوم دہشت گردوں کی طرف سے مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں، ان کے گھر کے دروازے پر بم بلاسٹ بھی کئے گئے۔

سال 2008 میں پارٹی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کاانتخاب لڑا اور لکی مروت جیسے خان ازم اور ملاازم میں گھرے علاقے سے بھی 517 ووٹ حاصل کئے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے ایڈوکیٹ صدر الدین مروت کو پارٹی خدمات کے بدلے صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پیش کی جس پر ان کی اہلیہ یاسمین ضیاء سال 2008 سے 2013 تک ممبر صوبائی اسمبلی رہیں۔

یاسمین ضیاء قدم بہ قدم ایڈوکیٹ صدر الدین مروت کے شانہ بشانہ رہیں اور لکی مروت میں تین ارب روپے کے ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے۔ انہوں نے لکی مروت کے گاؤں شاہ حسن خیل والی بال گراونڈ خودکش حملے کے شہداء کیلئے شہداء پیکج کی منظوری میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انہوں نے لکی سٹی ہسپتال کی دوبارہ تعمیر اور بہتری کیلئے کروڑوں روپے منظور کروائے۔

ایڈوکیٹ صدر الدین مروت نے صوبائی اسمبلی کی نشست پر اپنا سفر 517 ووٹوں سے شروع کیا اور آخری بار 2018 میں تقریباً 9000 ووٹ حاصل کئے۔ وہ مقامی سیاست میں مسلسل آگے جا رہے تھے۔

پارٹی پر جب بھی کھٹن حالات آئے تو انہیں میدان میں اتارا گیا۔ وہ سال 2013 میں صوبائی ترجمان بنے اور پھر سال 2019 میں صوبائی ترجمان بنائے گئے۔ سال 2020 میں پارٹی کے ساتھ اندرونی اختلافات کی وجہ سے ایدوکیٹ صدرالدین مروت کو ضلعی صدارت اور صوبائی ترجمان کے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے۔

ایڈووکیٹ صدرالدین مروت کئی سال قبل دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ کچھ عرصہ پہلے کورونا کا شکار ہوئے تھے، جیسے ہی کورونا سے صحت یاب ہوئے تو عارضہ قلب نے پھر آن لیا، گزشتہ کئی دن سے پھر علیل اور اسلام آباد میں زیر علاج تھے۔

ایڈوکیٹ صدرالدین مروت کی زندگی میں 10 کا ہندسہ نمایاں رہا۔ وہ 10 مارچ 1960 کو پیدا ہوئے۔ 10 نومبر 1989 کو شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اور 10 مارچ 2021 ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا، مرحوم کو ان کے آبائی قبرستان ممہ خیل سراۓ نورنگ لکی مروت میں سپرد خاک کیا جائے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button