منگل باغ کون تھا؟
خیال مت شاہ آفریدی سے
کالعدم تنظیم لشکر اسلام پاکستان کے مرکزی امیر منگل باغ افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے علاقہ آچن باندرہ میں ایک بم دھماکے میں کام آ گئے ہیں حکومتی دارے جس کی تصدیق نہیں کر رہے تاہم آزاد اور منگل باغ کے قریبی ذرائع سے ان کے مرنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق افغانستان میں برسرپیکار پاکستان کی جانب سے کالعدم قرار پانے والی تنظیم لشکر اسلام کے امیر منگل باغ جمعرات کی صبح آچین باندرہ میں اپنے بیٹے کے گھر رات گزارنے کے بعد اپنے مرکز کی جانب جا رہے تھے کہ اس دوران پہلے سے نصب شدہ بم ان کے پاؤں سے لگ گیا، بم پھٹنے سے وہ دو ٹکڑے ہو کر موقع پر جاں بحق ہو گئے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ دھماکے سے ایک رضاکار اور ایک بچہ بھی زخمی ہوا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ واقعہ صبح 8 بجے ہوا جبکہ واقعے کے بعد لشکر اسلام کے رضاکاروں نے ڈرون حملے کے خوف سے کسی کو بھی منگل باغ کے آخری دیدار کی اجازت نہیں دی اور ان کی نماز جنازہ میں، جو افغانستان کے وقت کے مطابق 4 بجے ادا کیا گیا، پچاس اور 70 کے درمیان رضاکار شریک ہوئے۔
واضح رہے کہ کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے 55 سالہ امیر منگل باغ باڑہ میں مذہبی پیشواہ پیر سیف الرحمان کو علاقہ بدر کرنے کی تحریک شروع کرنے والے مفتی منیر شاکر کی تشکیل کردہ تنظیم لشکر اسلام کے جنگی کمانڈر کے طور مشہور ہوئے، بعد میں مفتی منیر کے ساتھ ان کے اختلافات شروع ہوئے اور وہ تنظیم کے مرکزی امیر بن گئے۔
سال 2004 میں مقامی انتظامیہ اور کالعدم تنظیم کے درمیان طاقت کی رسہ کشی شروع ہوئی اور اس دوران حکومت نے ان کے خلاف مزاحمت کے لئے مقامی سطح پر وادی تیراہ میں انصارالاسلام نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی جس کے امیر قاضی محبوب الحق اور نائب امیر عزت اللہ ہم خیال نے انصارالاسلام کو منظم کر کے کالعدم لشکر اسلام کے خلاف روایتی طور پر تحریک شروع کر دی۔
2004 ہی میں سکیورٹی فورسز نے ہیلی کاپٹر سے سپین قبر سپاہ چوک میں قائم لشکر اسلام کے مرکز پر شیلنگ کر کے لشکر اسلام کو علاقہ بدر کرنے کی کوشش کی جس کے بعد تنظیم کے امیر اپنے رضاکاروں سمیت باڑہ سے لنڈیکوتل گوگرینہ منتقل ہوئے اور وہاں اپنی تحریک منظم کر کے وادی تیراہ باغ میں انصار الاسلام کے زیرقبضہ درپیز اور شلوبر سمیت اکا خیل کے علاقوں پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کر لیا جس میں بڑے پیمانے پر مقامی قبیلوں کے بے گناہ لوگ مارے گئے لیکن بعد میں انصارالاسلام کے رضاکاروں نے لشکر اسلام کو پسپائی پر مجبور کر کے ان سے علاقے کا کنٹرول دوبارہ چھین لیا۔
تیراہ میں عسکریت پسندانہ واقعات اور حکومتی رٹ کو کمزور کرنے کے بعد سکیورٹی اداروں نے مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے لشکر اسلام کے شدت پسندوں کے خلاف ایف سی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد سے آپریشن شروع کئے لیکن بے سود رہے جبکہ آخر کار سال 2009 میں خیبر ون آپریشن کے نتیجے میں تحصیل کے مکمل علاقے کو خالی کر دیا گیا اور ہزاروں لوگ آئی ڈی پیز بن کر کیمپوں میں منتقل ہوئے۔
سال 20012.13 میں ٹی ٹی پی اور کالعدم لشکر اسلام نے منگل باغ کی قیادت میں تیراہ باغ مرکز پر حملہ کر کے انصارالاسلام کا وہاں سے مکمل صفایا کر دیا، درایں اثناء تیراہ میں املاک اور گھروں کو نقصان پہنچا، تیراہ کے امن کو بھی برباد کر دیا گیا جس کے بعد حکومت نے خیبر تھری کے نام سے آپریش کر کے منگل باغ اور تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں کو پاکستان سے بے دخل کر کے پڑوسی ملک افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔
منگل باغ کی تنظیم لشکر اسلام سرحد پار افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے علاقوں نازیان اور آچین باندر سے پاک فوج کیخلاف برسرپیکار رہی اور وہاں سے سکیورٹی فورسز کے مورچوں اور اڈوں پر حملے کرتی رہی، ان حملوں کے نتیجے میں سکیورٹی فورسزکو کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔
اس سے قبل بھی ان کی ہلاکت بارے کئی بار افواہیں پھیلائی گئیں لیکن ان میں کوئی صداقت نہیں تھی البتہ ایک بار وہ ایک ڈرون حملے میں زخمی ضرور ہوئے، اس بار افغانستان کے علاقہ آچین کے اس واقعے میں ان کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے، اطلاعات کے مطابق اپنے ہی رضاکاروں کی جانب سے نصب شدہ بم کے پھٹنے سے منگل باغ کی موت ہوئی ہے۔