فیچرز اور انٹرویو

پشاور: لڑکی کا خاتون پرنسپل پر ہم جنس پرستی کا الزام

ناہید جہانگیر

پشاور سے تعلق رکھنے والی نورینہ نے الزام لگایا ہے کہ وہ پچھلے کئی مہینوں سے ہم جنس پرست خاتون کی جانب سے جنسی ہراسانی کا شکار ہے۔

32 سالہ نورینہ کہتی ہیں کہ یہ ایک سال قبل کی بات ہے جب ایک خاتون نے فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجی، میں اکثر پروفائل چیک کر کے ریکویسٹ قبول کرتی ہوں، جب اس کا پروفائل چیک کیا تو وہ ایک گورنمنٹ سکول کی ہیڈ مسٹریس تھی اور ساتھ میں وہ کافی نامی گرامی شخصیات کے ساتھ بھی فیس بک پر ایڈ تھی، تسلی کے بعد میں نے بھی فیس بک پر ان کی دوستی کی درخواست قبول کر لی۔

دو یا 3 دن بعد اس خاتون نے فیس بک مسینجر پر سلام کیا اور ساتھ میں حال چال بھی پوچھا جس کا میں نے بھی جواب دیا۔ اسی طرح یہ سلسلہ چل پڑا، وہ ہر ایک یا دو دن بعد دعا سلام کرتی رہتی تھی اور میں بھی باقاعدگی سے جواب دیتی رہی۔

نورینہ نے مزید کہا کہ ایک دن اس خاتون نے مجھے کہا کہ ان کے بچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں، شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اس لئے جب بور ہوتی ہے تو مجھے مسیج کرتی ہے۔ "میں نے جواب میں کہا آنٹی! کوئی بات نہیں ہے آپ مجھ سے کال اور میسجز پر بات کر سکتی ہیں۔”

تقریباً 2 مہینوں کے بعد خاتون نے مجھ سے میرا فون نمبر مانگا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ آپ تو میری بیٹی جیسی ہو جب کبھی بور ہوں گی تو  آپ سے فون پر بات ہوتی رہے گی۔ کیونکہ مجھے ان 2 مہینوں میں یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہ تو ایک خاتون ہی ہیں اس لئے میں نے بھی بلا جھجک ان کو اپنا نمبر دے دیا۔

وہ خاتون کبھی کبھار مسیجز کرتی رہتی اور پھر مجھے اچانک ایک دن دوستی کی آفر کر دی، میں نے کہا کہ فیس بک پر دوست ہیں اپنا نمبر دیا ہے بات بھی ہوتی ہے ہم دونوں پہلے سے دوست ہی تو ہیں۔

لیکن خاتون نے کہا کہ یہ تو عام سی دوستی ہے اور میں خاص دوستی کرنا چاہتی ہوں میں  نے کہا کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کے مطلب نے میرے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی، میں نے ہم جنس پرست خواتین کے حوالے سے سنا تو تھا لیکن اب میرا اپنا واسطہ ایسی خاتون سے پڑا تھا جس کے لئے میں ذہنی طور پر قطعی تیار نہ تھی۔

خاتون کی اس آفر نے مجھے کافی پریشان کیا اور میں نے فوراً انہیں فیس بک اور موبائل پر بلاک کر دیا۔

اسی دن اس نے ایک اور نمبر سے میسجز کئے اور مجھے منانے کی کافی کوششیں کرتی رہی۔ میرے رونگھٹے اس وقت کھڑے ہو گئے جب اس خاتون نے مجھے اپنی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر وٹس ایپ پر بھیج دیں۔

نورینہ خود کئی سالوں سے پرائیویٹ سیکٹر میں نوکری کرتی آ رہی ہے لیکن انہیں جنسی ہراسانی کی صورت میں متعلقہ اداروں سے رابطہ کرنے اور درخواست کے طریقہ کار کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سب کچھ اپنی ذات پر برداشت کرتی ہیں اور اس سلسلے میں کسی ادارے کی مدد لینے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔

خیبر پختونخوا میں جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لئے 2010 میں ایکٹ بنا ہوا ہے جس کے مطابق سرکاری ملازم پر ایسا جرم ثابت ہونے پر ان کو ملازمت سے برخاست بھی کیا جا سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی محتسب رخشندہ ناز کا کہنا ہے کہ قانون میں اس ضمن میں مجرم مرد و خاتون کے لئے ایک جیسی سزائیں ہیں۔

صوبائی محتسب کا کہنا ہے کہ انہیں صرف مخالف جنس کی جانب سے ہراساں کرنے کی درخواستیں موصول ہوتی رہتی ہیں جبکہ ہم جنس پرستی سے متعلق ہراسانی کی کوئی شکایت نہیں آئی لیکن اگر کوئی ایسا کیس آتا ہے تو ان کے خلاف جنس کی تفریق کے بغیر کاروائی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ شکایت کے بغیر وہ کسی کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتیں۔

نورینہ اپنا کیس صوبائی محتسب کے پاس نہیں لے جانا چاہتیں۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے نورینہ نے کہا کہ وہ نہ تو کسی قانونی جھنجھٹ میں پھنسنا چاہتی ہیں اور نہ ہی کسی سے اس معاملے کے حوالے سے بات کرنا چاہتی ہیں۔

انہوں نے اپنی آب بیتی سناتے ہوئے کہا کہ انہیں ہراساں کرنے والی خاتون نے یہاں تک بتایا ہے کہ میں انہیں اچھی لگتی ہوں، اگر میں ان کی دوستی کی آفر قبول کر لوں تو ہر مہینے میرا ذاتی خرچ وہ برداشت کرے گی، میں جہاں سے شاپنگ کرنا چاہوں بل وہ ادا کرے گی، اور اگر انکار کر دیا تو میرا موبائل نمبر اور فیس بک معلومات ایسے لڑکوں کو دے دوں گی جو میرا جینا حرام کر دیں گے۔

نورینہ نے بتایا کہ وہ اب تک اس خاتون کے تقریباً 15 سے 20 تک فون نمبرز بلاک کر چکی ہیں لیکن اس کی جانب سے مختلف نمبروں سے میسجز کرنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ ‘مجھے اب اس مسئلے کا صرف یہی حل نظر آتا ہے کہ اپنا فون نمبر تبدیل کر لوں لیکن فی الحال ایسا اس لئے نہیں کر سکتی کہ میں نے مختلف جگہوں پر ملازمت کے لئے اپلائی کیا ہوا ہے اور سی وی پر یہی نمبر درج ہے۔’ انہوں نے سوچ کر کہا۔

سرکاری طور پر ملازمت پیشہ خواتین کی جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لئے صوبائی محتسب کے علاوہ کئی ایک غیر سرکاری ادارے بھی مصروف عمل ہیں۔ ان اداروں میں پشاور میں ‘د حوا لور’ یعنی حوا کی بیٹی نامی ادارہ بھی ہے۔

د حوا لور کی انتظامی افسر خورشید بانو کے مطابق خیبر پختونخوا میں ابھی تک کسی خاتون نے کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں کیا کہ کوئی دوسری خاتون اس کو جنسی طور پر ہراساں کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ نہیں ہو رہا لیکن ہمارے ہاں والدین اور اساتذہ کی جانب سے نا ہی بچوں کو جنسی آگاہی دی جاتی ہے اور نا ہی اس پر کھلے عام بات کی جاتی ہے۔

حوا لور کی انتظامی افسر خورشید بانو نے کہا کہ خیبر پختونخوا سمیت پورے پاکستان میں جس طرح ہم جنس پرست مردوں کی جانب سے جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے آتے ہیں اسی طرح ہم جنس پرست عورتیں بھی اس گھناؤنے فعل میں ملوث ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسے کیسز میں متاثرہ خواتین سامنے نہیں آئیں۔ ‘یہاں مخالف جنس کی جانب سے ہراسانی کا شکار خواتین اپنا معاملہ کسی کو بیان نہیں کرتیں تو ہم جنس پراست خواتین کی ہراسانی کے شکار خواتین کا سامنے آنا تو بہت دور کی بات ہے۔’

انہوں نے کہا کہ پاکستانی یونیورسٹیوں اور خاص طور پر گرلز ہاسٹلز میں اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پشاور یونیورسٹی کی جانب سے ایک لڑکی نے اپنی روم میٹ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا لیکن انہوں نے بھی نورینہ کی طرح قانونی کارروائی سے انکار کر دیا تھا۔

خورشید بانو نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے میں ہم اپنے بچوں کو سکس بیسڈ تعلیم نہیں دیتے، بچپن سے بچوں کو اچھے برے کی تمیز سکھائی جاتی ہے لیکن جنس پر بات نہیں کی جاتی، اور نا ہی بلوغت کو پہنچنے پر جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ان کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ ‘ہمارے بچوں کو یہ نہیں معلوم کہ اگر جنسی ہراسانی کا شکار ہوں تو وہ بچنے کے لئے کون سا راستہ اختیار کر سکتے ہیں اور یا خدا نخواستہ وہ جنسی زیادتی کے شکار ہو جائیں تو وہ کیسے انصاف حاصل کر سکتے ہیں۔’

خورشید بانو کے مطابق ہمارے معاشرے میں جنسی استحصال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین بچوں سے کافی فاصلہ رکھتے ہیں تو اگر بچہ جنسی طور پر ہراساں یا زیادتی کا شکار ہو بھی جائے تو وہ گھر پر ذکر نہیں کرتا جس کی وجہ سے مسلسل بلیک میل ہوتا رہتا ہے اور یوں اس کا مسئلہ ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا جاتا ہے۔

جس طرح 2010 میں ہراسانی کی روک تھام کا قانون بنا تو ان دنوں اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا، حالانکہ خواتین ہراساں ہو رہی تھیں لیکن بات کرنے سے کتراتی تھیں، اب آہستہ آہستہ اس مسئلے پر بات بھی ہوتی ہے اور کیسز بھی رجسٹرڈ ہو رہے ہیں، اسی طرح جب تک ہم جنس پرستی پر آگاہی نہیں دی جاتی اور بات نہیں کی جائے گی تو اس مسئلے میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہو گا۔

دوسری جانب نورینہ نے رپورٹ یا شکایت درج نہ کرنے کی ایک وجہ سماجی دباؤ کو بھی قرار دیا اور کہا کہ سائبر کرائم یا صوبائی محتسب دفتر اس لئے نہیں گئی کہ کہیں قصہ آشکارا نہ ہو جائے جس سے میری ذہنی کوفت میں مزید اضافہ ہوگا۔

صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے ایکٹ کے مطابق جنسی ہراسانی کی سزاؤں کے حوالے سے کہا کہ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو 5 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے، اگر درخواست گزار یہ شکایت بھی کرے کہ ہراسائی کے دنوں میں وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوا/ہوئی اور اس نے اپنا علاج بھی کیا ہے تو جرمانہ 5 لاکھ سے بڑھایا بھی جا سکتا ہے اور یہ جرمانہ ہراسانی کے شکار فرد کو دیا جائے گا۔ اگر ہراسانی سوشل میڈیا یا فون وغیرہ پر ہو تو کیس کو سائبر کرائم کے حوالے کیا جاتا ہے۔

(سٹوری میں متاثرہ لڑکی کی درخاست پر ان کی اور ملزمہ کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے)

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button