باڑہ کا کلنگہ شمشان گھاٹ خیبر سمیت پشاور کی سکھ برادری کے مشکلات بھی کم کرسکتا ہے
خالدہ نیاز
‘قبائلی ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد دیگر لوگوں کی طرح وہاں سے بے گھر ہونے والے سکھ برادری بھی واپس جانے لگے ہیں اس لئے چاہئے کہ وہاں موجود کلنگہ شمشان گھاٹ بھی بحال کیا جائے’
باڑہ سے تعلق رکھنے والے سکھ کمیونٹی کے رہنما باباجی گورپال سنگھ کہتے ہیں کہ بدامنی اور اپریشنز کے بعد باڑہ شمشان گھاٹ بحال نہ ہونے کے باعث ان لوگوں کی مشکلات کافی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ میت ہونے کی صورت میں وہ آخری رسومات کے لئے اٹک شمشان گھاٹ جاتے ہیں کیونکہ پشاور میں بھی کوئی شمشان گھاٹ نہیں ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے گورپال سنگھ نے کہا کہ اٹک شمشان گھاٹ ان سے کافی دور پڑتا ہے جس کی وجہ سے سکھ کمیونٹی کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن باڑہ کلنگہ شمشان گھاٹ پشاور سے کافی قریب پڑتا ہے اور وہ بحال ہونے سے مشکلات میں کمی آسکتی ہے’
سکھ کمیونٹی کے رہنما باباجی گورپال سنگھ کا کہنا ہے کہ پورے خیبرمیں انکے 13 شمشان گھاٹ ہیں جن میں سے ایک کلنگہ شمشان گھاٹ بھی ہے جس کو سکھوں نے 35 سال تک استعمال کیا ہے تاہم 10 سال پہلے جب ضلع خیبرمیں حالات خراب ہوئے تو باقی لوگوں کی طرح سکھ کمیونٹی نے بھی باقی علاقوں کا رخ کیا اور یوں یہ شمشان گھاٹ بھی وہی رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب انہوں نے ایک مسلمان خاندان کو اس شمشان کی حفاظت کے لیے رکھا ہوا ہے جو وہاں رہتے بھی ہیں اور شمشان گھاٹ کا خیال بھی رکھتے ہیں۔
باباجی گورپال سنگھ نے بتایا کہ کلنگہ شمشان گھاٹ پشاور میں رہائش پذیر سکھوں کی ضرورت بھی پوری کرسکتا ہے، ایک تو یہ اٹک سے نزدیک پڑتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ اکثر اٹک جاتے ہوئے راستے بند ہوتے ہیں اور دھرنوں کی صورت میں بھی پشاور کی سکھ کمیونٹی کلنگہ شمشان گھاٹ کو استعمال کرسکتی ہیں۔ کلنگہ شمشان گھاٹ پشاور سے دس کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ہے۔
باباجی گورپال سنگھ کا کہنا تھا کہ جو مسلمان خاندان کلنگہ شمشان گھاٹ میں رہائش پذیر ہے ان کو سکھ کمیونٹی کی جانب سے ماہانہ تنخواہ اور راشن بھی دیتے ہیں۔ باباجی گورپال سنگھ نے بتایا کہ اب سکھ کمیونٹی کے لوگوں کا مطالبہ ہے کلنگہ شمشان گھاٹ کی مرمت کی جائے تاکہ یہ لوگ اپنی آخری رسومات اس شمشان گھاٹ میں ادا کرسکیں اور انکی مشکلات کم ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں 26 جون کو ڈی سی خیبر اور اقلیتی برادری سے منتخب ایم پی اے ولسن وزیر سے ملاقات کی ہے اور ان کو شمشان گھاٹ میں موجود مسائل کے حوالے سے بتایا ہے، کلنگہ شمشان گھاٹ میں پانی کا مسئلہ بہت بڑا ہے کہ یہاں پانی کا کوئی بندوبست نہیں، اس کے قریب بائی پاس ایک سڑک بن رہی ہے ہم چاہتے ہیں کہ وہ جلد بن جائے اور شمشان گھاٹ میں کچھ تعمیراتی کام بھی کرنا ہے تاکہ یہاں مردوں کی آخری رسومات ادا کرسکیں۔
باباجی گورپال سنگھ نے کہا کہ باڑہ میں اس وقت سکھوں کے 105 دکان ہیں جبکہ انکے خاندان پشاور میں آباد ہے تو یہ لوگ صبح جاتے ہیں اور شام کو دوبارہ گھروں کو واپس جاتے ہیں اور یہ لوگ واپس باڑہ جانا چاہتے بھی ہیں لیکن انکے گھر وغیرہ خراب ہوگئے ہیں تو اب ضرورت اس بات کی ہے باڑہ میں انکو سہولیات دی جائے، کلنگہ شمشان گھاٹ کو سہولیات دی جائے تاکہ یہ لوگ وہاں سکون سے رہ سکیں۔
باباجی گورپال سنگھ نے بتایا کہ ضلع خیبرکے باغ بازار میں 8 کے قریب سکھ خاندان آباد ہے جبکہ باقی لوگوں نے خیبرسے ہجرت کی ہے۔
مزمل شاہ ور ان کا خاندان 3 سالوں سے سکھ کمیونٹی کی اجازت سے کلنگہ شمشان گھاٹ میں رہ رہے ہیں۔ مزمل شاہ کا کہنا ہے کہ وہ کلنگہ شمشان گھاٹ کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں اور یہاں انہوں نے رہائش اس لیے اختیار کی ہے کیونکہ تیراہ سے تعلق رکھنے والے متاثرین ہے اور انکے گھربار بدامنی کے دوران تباہ ہوئے ہیں۔
مزمل شاہ نے کہا کہ وہ شمشان گھاٹ کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں اس کے علاوہ وہاں پودوں کو پانی وغیرہ بھی دیتے ہیں۔ مزمل شاہ نے یہ بھی بتایا کہ سکھ کمیونٹی کے گھروں میں بھی مسلمان رہائش پذیر ہے کیونکہ اب وہ یہاں نہیں ہے کہ انہوں نے بھی بدامنی کے وقت یہاں سے نقل مکانی کی تھی۔
دوسری جانب اقلیتی برادری کے لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے معاون خصوصی اور ایم پی اے وزیرزادہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کلنگہ شمشان گھاٹ بند نہیں ہے بلکہ کھلا ہے البتہ اس میں جو مرمت کا کام ہے وہ جلد ہی شروع کردیا جائے اور پانی کا مسئلہ بھی حل کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ 11 اگست کو معاون خصوصی وزیراعلی برائے اقلیتی برادری وزیر ذادہ، اقلیتی ایم پی اے ویلسن وزیر اور ممبرصوبائی اسمبلی شفیق آفریدی نے تحصیل باڑہ کے علاقے کلنگہ اکاخیل میں واقع شمشان گھاٹ کا دورہ کیا تھا۔
اس موقع پر وزیر زادہ کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں اقلیتوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ 15 سال پرانے شمشان گھاٹ ابھی تک محفوظ ہے اور وہاں رکھی گئی لکڑیاں اور دیگر سامان امانت پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اقلیتوں کے حقوق کےلئے اقدامات کر رہے ہیں اور ان کےلئے وہاں پر رہائشی کالونی سمیت تمام سہولیات دی جائے گی۔