خیبرپختونخوا کی وہ واحد خواجہ سرا جو ایم فل سکالربن گئی
خالدہ نیاز
خیبرپختونخوا میں ایم فل تک تعلیم حاصل کرنے والی واحد خواجہ سرا چاکلیٹ مستقبل میں ڈانس کو چھوڑ کرباعزت روزگار کرنا چاہتی ہیں۔
ضلع چارسدہ کے علاقے شبقدر سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا چاکلیٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے فنانس اینڈ اکاونٹنگ میں ایم فل کیا ہے جہاں تک پہنچنا کسی بھی خواجہ سرا کے لئے کسی خواب سے کم نہیں۔
‘اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اب بھی میں ڈانس پروگرامز کرتی ہوں اور یہی میرا ذریعہ معاش ہے، ڈانس پروگرامز کرنے کی ایک وجہ یہ ہے ایک تو ان کو نوکری نہیں ملتی پھر اگر ملتی بھی ہے تو معاشرے کی تنگ نظری کی وجہ سے اس کو برقرار رکھ نہیں پاتی کیونکہ میں اگر ہسپتال، پولیس ڈیپارٹمنٹ یا کہیں بھی جاؤں تو مجھے ایک خوف محسوس ہوتا ہے’
‘مستقبل میں اگر مجھے باعزت روزگاریا نوکری ملی تو میں خوشی سے ڈانس کو چھوڑ دونگی کیونکہ ڈانس کرنا میرا شوق نہیں ہے بلکہ میں مجبوری میں ایسا کرتی ہوں’ چاکلیٹ نے حسرت سے کہا۔
آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجائے اس نے کہا میں چاہتی ہوں کہ سی ایس ایس یا پی ایم ایس کا امتحان پاس کروں اور افسر بن جاؤں تاکہ میں اپنی کمیونٹی اور باقی لوگوں کی خدمت کرسکوں کیونکہ اگر میں افسر بن گئی تو میرے پاس اختیارات آجائیں گے اور کوئی مجھے تنگ یا ہراساں نہیں کرسکے گا۔
معاشرہ کیسے خواجہ سراوں کو باعزت روزگارکرنے نہیں دیتا اس حوالے چاکلیٹ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا’بی اے کرنے کے بعد میں نے اپنے لئے نوکری ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لوکل گورنمنٹ محکمے میں بھی فارم جمع کئے اور ٹیسٹ میں 64 نمبر بھی لیے لیکن جب میں انٹرویو دینے گئی تو وہاں ایک افسر نے مجھے کہا کہ اگر میرے ساتھ دوستی کرتی ہو تو تمہیں یہ نوکری مل جائے گی لیکن اگرنہیں مانتی تو یہ نوکری تمہیں نہیں مل سکتی جس کے بعد میں اپنی پوری توجہ تعلیم پردی’
‘تعلیم حاصل کرنے میں مجھے شروع سے ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لڑکے اور لڑکیاں مجھے تنگ کرتے تھے اکثر اساتذہ سے بھی مار پڑتی تھی، تعلیمی اداروں میں جس طرح عام طالبعلموں کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے اور انکی بھرپور رہنمائی اور مدد کی جاتی ہے اس طرح خواجہ سراوں کی نہیں کی جاتی’
خواجہ سرا چاکلیٹ کو بچپن سے تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، وہ ڈاکٹر بھی بننا چاہتی تھی اور وکیل بھی، شروع میں تعلیم حاصل کرنے میں والدین اور دوستوں نے انکی مدد کی لیکن جب انہوں نے انکو چھوڑ دیا تو پھرانہوں نے خود ہمت کی اور ایم فل تک تعلیم حاصل کرلی’ والدین نے کہا کہ اتنا پڑھ کرکیا کرو گی بس آگے تعلیم حاصل نہ کرو اور سعودی عرب جاکر مزدوری کرو کیونکہ پڑھ لکھ کر بھی کوئی نوکری نہیں ملنے والی، ایسا نہیں تھا کہ میرے والدین نے صرف مجھے تعلیم سے روکا بلکہ میرے ایک بھائی نے نویں جماعت میں تعلیم کو خیربادکہا اور دوسرے نے بارہویں جماعت میں تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور سعودی چلے گئے’
انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا تو والد نے شناختی کارڈ بنانے کا کہا تاکہ ان کو سعودی عرب بھیج سکے لیکن انہوں نے شناختی کارڈ بنانے کے بجائے ڈی ایم سی کے تحت فارم ب بنایا اور یوں میں سعودی عرب نہیں گئی، اس کے بعد انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا جس کے بعد والد نے تعلیم کے معاملے پر مدد نہیں کی اور کہا کہ بس اور نہ پڑھو جس کے بعد چاکلیٹ نے ہاسٹل میں رہائش اختیارکی ڈانس سے جو کماتی تھی اس کے اپنے تعلیمی اور باقی اخراجات پوری کرنے لگی۔
چاکلیٹ نے کہا کہ انکے والدین امیر لوگ ہیں اور جس وقت انہوں نے گھر کو چھوڑا اس وقت بھی انکے اکاونٹ میں اچھی خاصی رقم موجود تھی جسے میں نے اپنی پڑھائی پرہی خرچ کیا لیکن پھر میرے پاس پیسے ختم ہوگئے تو میں نے نوکری شروع کردی لیکن جلد ہی وہ نوکری بھی چھوٹ گئی کیونکہ جب انکو پتہ چلا کہ میں ایک خواجہ سرا ہوں تو انہوں نے مجھے نظرانداز کرنا شروع کردیا اور کہا کہ ہمارے پاس کوئی ویکنسی موجود نہیں ہے تو بس وہ نوکری ہاتھ سے چلی گئی۔
خواجہ سرا کیوں تعلیم حاصل نہیں کرپاتے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ سرا چاکلیٹ نے بتایا کہ تعلیمی اداروں میں صبح کے وقت جانا ہوتا ہے جبکہ خواجہ سرا اس وقت سوئے ہوتے ہیں کیونکہ وہ رات کو فنکشن پرجاتے ہیں اور پھر دن کے وقت لیٹ اٹھتے ہیں اکثرمجھ سے جب ساتھی خواجہ سرا تعلیم کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ دنگ رہ جاتے ہیں پھر میں انکو مشورہ دیتی ہوں کہ وہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں داخلے لیں اور ساتھ میں ٹیوشن کرے تو پاس ہوسکتے ہیں۔
اخر میں چاکلیٹ نے پرامید ہوکر کہا کہ سی ایس ایس کے لیے ابھی کوئی تیاری نہیں کی لیکن جیسے ہی حالات ٹھیک ہوتے ہیں اور ادارے کھلتے ہیں تو میں داخلہ لے کرتیاری شروع کردے گی۔