‘آگاہی تو دے دی لیکن دہشت گردی سے متاثرہ لوگ گھربیٹھنے کو تیار نہیں’
رضوان محسود
‘آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارےے علاقے کے لوگ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کررہے جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں کیونکہ اگر لوگ احتیاط نہیں کریں گے تو کورونا تیزی سے پھیلے گا’
پریشانی کے عالم میں بات کرتے ہوئے جنوبی وزیرستان مکین کے رہائشی ملک بنیامین نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں انٹرنیٹ اور باقی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے اتنی آگاہی نہیں ہے جتنا کہ ملک کے دوسرے حصوں میں ہے اور یہ بات ان کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا حکومت کو چاہیئے کہ جنوبی وزیرستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگرکرنے کے لیے خصوصی اقدامات کریں اور مہم چلائے۔
اگر ایک طرف ملک بنیامین پریشان ہے تو دوسری جانب جو افراد مقامی لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے مہم چلارہے ہیں وہ بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ عرفان اللہ جوکہ سوشل ورکر ہیں جنوبی وزیرستان میں دہشت گردی کی لہر ختم ہونے کے بعد فلاحی کاموں میں مصروف ہیں کہتے ہیں اس ضلع میں لوگوں کو آگاہی دینا نہایت مشکل کام ہے ایک تو یہاں مواصلاتی ذرائع نہ ہونے کے برابر ہے تو دوسری جانب یہاں کی آبادی دور دور پہاڑوں پر بکھری ہوئی ہے اور یوں کونے کونے تک جانا اور سب کو آگاہی دینا کٹھن کام ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے اور لوگوں کو اس خطرناک بیماری کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اس وقت پوری دنیا کوورنا وائرس کی لیپٹ میں ہے، پوری دنیا میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 81 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ اموات 4 لاکھ 40 ہزار سے زائد ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس پھیلتے ہی نوجوانوں نے جنوبی وزیرستان میں لوگوں کو آگاہی دینے کا بیڑا اٹھایا اور اپنی مدد آپ کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان سے ماسک،ہینڈ سینٹائزر خرید کراپنے ضلعے کے مختلف علاقوں سراروغہ،سرویکئی،تیارزہ میں جا کر لوگوں میں تقسیم کئے۔ انہیں میں سے ایک نوجوان حیات کہتے ہیں کہ انہوں اپنی بساط کے مطابق کام کیا جو ابھی بھی جاری ہے لیکن کہیں مالی مشکلات سامنے آجاتی ہیں تو کہیں دور دراز علاقوں میں جانے کے لیے ٹرانسپورٹ نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا ‘کئی جگہوں پر ہم نے گاڑیوں پر ساونڈ سسٹم لگا کرآگاہی تو دے دی لیکن پچھلے کئی سالوں سے یہ علاقہ دہشت گردی کا شکار رہا ہے یہاں بیروزگاری زیادہ ہے تو کوئی بھی اپنے گھر پر بیٹھنے کو تیار نہیں دوسری بات یہ کہ ماسک اور سینٹاٗرزکی قمیتیں بھی بہت زیادہ ہیں تو اس وجہ سے لوگ نہیں لے پاتے’
ضلعی انتظامیہ کے مطابق جنوبی وزیرستان میں ابھی تک 15 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، 178 مشتبہ کیسز بھی ہیں جبکہ 161 افراد کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے ہیں۔ انتظامیہ کے مطابق جنوبی وزیرستان میں کورونا سے ابھی تک ہلاکت سامنے نہیں آئی اور 8 افراد کورونا وائرس کو شکست دے چکے ہیں۔
دوسری جانب ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور جنوبی وزیرستان میں کورونا کے فوکل پرسن فہیداللہ خان کہتے ہیں کہ جب سے یہ وباء شروع ہوئی ہے ہم نے اپنے ضلعے کے ہر تحصیل میں آگاہی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے فری ماسک،سینٹاٗرز بھی تقسیم کیئے ہیں جگہ جگہ بینرز لگائے ہیں، اپنی طرف سے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ضلعے میں کورونا مریضوں کی تعداد انتہائی کم ہے جبکہ جو کیسز آئے بھی ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر یاتو بیرون ملک سے آئے ہیں اور یا دوسرے علاقوں سے سفر کر کے آئے ہیں۔
ممبر صوبائی اسمبلی حافظ اعصام الدین کہتے ہیں کہ آگاہی کے حوالے سے انہوں نے بذات خود مختلف علاقوں کے دورے کئے ہیں، ان کے حلقے میں کورونا کے کوئی خاص کیس سامنے نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بڑے بڑے ہسپتال بنائے گئے ہیں لیکن اُن میں عملہ نہیں یہاں تک ایمبولینس گاڑیاں بھی نہیں تو ہم اس بیماری کو کیسے شکست دے سکتے ہیں یہ چیزیں انہوں نے نوٹ کر لی ہے اور بہت جلد اس پراسمبلی بات کریں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں اب تک کورونا سے مجموعی طور پر 2968 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ نئے کیسز سامنے آنے کے بعد مریضوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرکے 154335 تک پہنچ گئی ہے۔
اب تک پنجاب میں کورونا سے 1149 اور سندھ میں 886 افراد انتقال کرچکے ہیں جب کہ خیبر پختونخوا میں 731 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں 89، اسلام آباد میں 83 ، گلگت بلتستان میں 17 اور آزاد کشمیر میں مہلک وائرس سے 13 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔