”پاکستان میں اندازتاً 30 ہزار ٹن سالانہ شہد پیدا ہوتا ہے”
دعا آفریدی
پاکستان سمیت دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کا عالمی دن آج منایا جائے گا۔
اس دن کے منانے کا مقصد شہد کے حصول کیلئے شہد کی مکھیوں کی افزائش کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے۔
ماہرین کے مطابق شہد کی مکھیوں کی کمرشل بنیادوں پر افزائش اور فارم کرکے بھاری زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے، اس سے نہ صرف بہترین شہد کی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ شہد جیسی قدرتی نعمت سے معاشی استحکام بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ تقریباً پچاس ساٹھ سال قبل یورپ میں جدید مگس بانی کا آغاز ہوا اور جدید مگس بانی کے ذریعے شہد کی پیداوار کیلئے جدید صنعت کی بنیاد رکھ دی گئی اور پہاڑی ڈھلوانوں کے بجائے مکھیوں کیلئے جدید بکس ایجاد ہوئے۔
ماہرین حیاتیات کے مطابق دنیا میں 20 ہزار کے قریب مختلف اقسام کی مکھیاں پائی ہیں جبکہ شہد کی مکھیوں کی ان میں 44 اقسام ہیں۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے مولانا خانزیب کے مطابق پاکستان میں شہد کی صنعت کو لانے اور کامیاب بنانے کا سہرا افغان مہاجرین کے سر ہے جب یو این ایچ سی آر نے آسٹریلیا سے 1980 میں شہد کی مکھیوں کی یہ موجودہ جدید نسل لاکے افغان مہاجرین میں تقسیم کی اور پاکستان کی آب وہوا میں یہ نسل افغان مہاجرین کی محنت سے کامیاب ہوئی، پاکستان میں اس وقت تقریباً 30 ہزار کے قریب شہد کی مکھیوں کے فارمز ہیں جبکہ اس صنعت سے وابستہ افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے اور ان میں سے اکثریت پختونوں کی ہے۔
خیال رہے کہ چین، امریکہ، ہنگری، آسٹریلیا اور ترکی میں جدید مگس بانی کے ذریعے شہد بڑی مقدار میں پیدا ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں اندازتاً 30 ہزار ٹن سالانہ شہد پیدا ہوتا ہے جہاں مئی اور ستمبر کے مہینوں میں شہد حاصل کیا جاتا ہے جن میں ”پلوسہ (پھالئی یا پھلاہی)”، ”شوہ (شیشم)”، مالٹا، بیکھڑ، الائچی، شفتل، سپیرکئی، کریچی، شینشوبئی اور بیری کا شہد قابل ذکر ہے۔
مولانا خانزیب کے مطابق سب سے بہترین اور مختلف توانائی کے حراروں کی وجہ سے بیری کے شہد کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ بیری کے شہد میں شوگر کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے، توانائی کے حرارے بڑی مقدار میں اس میں پائے جاتے ہیں اور بیر کا شہد دوسرے شہد کی نسبت جمتا بھی نہیں اگرچہ شہد کا جمنا ایک قدرتی عمل ہوتا ہے اور شہد کے اصلی نقلی ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
یہ بھی واضح رہے کہ بیری کا شہد 2500 روپے فی کلو کے حساب سے مارکیٹ میں ملتا ہے، پاکستان کے بعد یمن میں بیری کا شہد پیدا ہوتا ہے مگر بہت کم مقدار میں۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ عالمی سطح پر شہد کی انٹرنیشنل مارکیٹ میں حکومتی سرپرستی کی وجہ سے یمنی بیری کا شہد 5000 روپے فی کلو تک بکتا ہے جبکہ پاکستان کا شہد اس سے بہتر کوالٹی کے باوجود حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے سستا بکتا ہے۔
پاکستان میں اس صنعت کو درپیش مشکلات میں ایک ملک میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی شامل ہے۔
اس حوالے سے مولانا خانزیب کہتے ہیں کہ شہد کی مکھی انسانی فائدے کے لئے مصروف عمل ہوتی ہے مگر انسان اپنی کوتاہیوں سے اس کی نسل اور خوراک کو ختم کرنے کے درپے ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے درخت لگائے جو ماحول کو سرسبز بنانے کے ساتھ ساتھ مکھیوں کی ضروریات کو بھی پورا کریں، پہلے سے موجود ان مخصوص درختوں کی کٹائی پر سخت پابندی لگائی جائے جن سے شہد حاصل کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح پولیس کی طرف سے فارمز مالکان کو مکھیوں کے نقل و حمل کے دوران تنگ کیا جاتا ہے، ان سے پیسے لئے جاتے ہیں جبکہ کچھ کو مکھیوں کے نقل و حمل کے دوران چیک پوسٹوں پر کئی کئی گھنٹوں تک روکے رکھا جاتا ہے جس سے کسی غریب پختون کے پورے فارم کے تباہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر اور ملک کے کچھ دوسرے علاقوں میں شہد کے فارمز کو جانے نہیں دیا جاتا کیونکہ ان علاقوں میں پختونوں کو مشکوک تصور کیا جاتا ہے جو بڑی تشویشناک بات ہے۔
مولانا کے مطابق کافی عرصہ سے شہد کا بیشتر کاروبار خلیجی ممالک کے ساتھ ہوتا تھا مگر کچھ عرصہ سے وہاں پر امن وامان کی مخدوش صورتحال نے اس کاروبار پر بھی برا اثر ڈالا ہے لہذا حکومتی طور پر شہد کی برآمدات کیلئے نئی منڈیاں تلاش کی جائیں جن میں یورپ اور وسطی ایشیاء کی شکل میں ایک بہت بڑی منڈی موجود ہے مگر پاکستان سے یورپ تک پہنچنے میں بہت مشکلات حائل ہیں، اگر افغانستان کے راستے یہ سہولت مہیا کی جائے تو ملک کے ساتھ اس کاروبار سے وابستہ افراد کا بھی بھلا ہوگا۔ ”قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے، شہد میں ہم نے شفا رکھی ہے۔” مصنوعی خوراکوں کے بجائے قدرتی شہد کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں کیونکہ پشاور کی انٹرنیشنل ہنی مارکیٹ میں آپ کو ہر طرح کا بہترین شہد ملے گا۔
واضح رہے کہ اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے آج مگس یونین کی طرف سے پشاور پریس کلب کے سامنے واک کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔