‘لڑکوں سے لڑنا ہوگا، میری تو پیروں تلے سے زمین کھسک گئی’
سیدہ قرۃ العین
آپ خاتون ہوں، تعلق خیبر پختونخوا کے قدرے قدامت پسند معاشرے اور پھر اوپر سے اقلیتی برادری سے بھی ہو تو اپنے خوابوں کو پانے کے لئے آپ کو دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنی محنت کرنا پڑے گی۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی باکسر صوفیہ جاوید نے اس حقیقت کو بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی بھرپور محنت سے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا لوہا منوا لیا ہے۔
صوفیہ جاوید جنوبی ایشیائی ممالک کے کھیلوں کے مقابلوں [سیف گیمز] میں 2016 میں پاکستان کے لئے برونز میڈل حاصل کرچکی ہیں اور اس کے علاوہ علاقائی اور قومی سطح پر بھی کئی میڈلز جیت چکی ہیں۔
صوفیہ جاوید کے مطابق انہیں بچپن سے ہی باکسر بننے کا شوق تھا لیکن ایک غریب مسیحی برادری سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہوں نے کبھی والدین پر زور نہیں دیا کہ کسی اکیڈمی میں داخلہ دلوائیں۔
‘گریجویشن کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ اب اپنا بوجھ خود برداشت کرسکتی ہوں تو جیسے تیسے والدین کو منایا اور پشاور میں ایک باکسنگ ٹریننگ سنٹر کی راہ لی۔’ صوفیہ جاوید نے بتایا۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے معروف خاتون باکسر نے کہا کہ ٹریننگ اکیڈمی جاکر انہیں معلوم ہوا کہ وہاں وہ واحد خاتون کھلاڑی ہیں اور ان کو مرد کوچز سے سیکھنا اور ٹریننگ کے دوران لڑکوں سے کھیلنا پڑے گا۔
‘ایک تو میں لڑکی اور اوپر سے گھونسوں کے اس کھیل میں نووارد، میری تو پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کہ لڑکوں سے لڑنا ہوگا لیکن پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور میدان میں کود گئی۔’ انہوں نے کہا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے صوفیہ نے کہا کہ شروع میں انہیں لڑکوں کے ساتھ سیکھنے میں عجیب محسوس ہوتا تھا اور کوچ اور ساتھی باکسرز کو بھی لگتا تھا کہ میں ایک لڑکی ہوں اور زیادہ دیر تک اکیڈمی میں نہیں ٹک پاؤں گی لیکن اپنی لگن اور محنت سے اس بات کو غلط ہی ثابت نہیں کیا بلکہ اپنا لوہا بھی منوایا۔
‘یہ دعویٰ میں نہیں کرتی کہ اکیڈمی کے سارے لڑکوں سے میں اچھی تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اس میں میرے پہلی اکیڈمی کے کوچز کے علاوہ تمام کھلاڑیوں کا بھی کردار ہے، میں نے ہر کھلاڑی سے کوئی نہ کوئی گر سیکھا اور آج بھی اسی پر عمل کر رہی ہوں۔’
انہوں نے کہا کہ مرد کوچز سے سیکھنے اور لڑکوں سے مقابلے کرنے کا انہیں ایک فائدہ بھی ہوا کہ اب خواتین کھلاڑیوں پر اکثر اوقات بھاری پڑتی ہیں۔ ‘اب میری پنچ کو سہنا بہت سی لڑکیوں کے بس کی بات نہیں۔’ باکسر صوفیہ نے کہا۔
صوفیہ جاوید نے کہا کہ وہ جب قیوم سپورٹس کمپلکس میں پریکٹس کے لئے آئیں تو اس وقت انتظامیہ نے انہیں پریکٹس سے بھی روک دیا کیونکہ وہاں پر خواتین کے لئے علیحدہ کوئی رِنگ نہیں تھا۔ ‘بعد میں بہت اصرار کے بعد وہاں بھی مجھے مرد کھلاڑیوں کے ساتھ پریکٹس کی اجازت دے دی گئی۔’
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں باکسنگ کے کھیل میں خواتین کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی لیکن پھر بھی جو لڑکیاں اس میں آنا چاہیں انہیں سب مشکلات کو بالائے طاق رکھ کر آگے آنا چاہئے۔
‘اس طرف لڑکیوں کو آنا چاہیے کیونکہ باکسنگ میں لڑکیوں کی بہت کمی ہے اور لڑکیاں بھی اس فیلڈ میں محنت کرکے اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرسکتی ہیں’ صوفیہ نے بتایا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ لڑکیوں کو لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ مواقع نہیں ملتے، بہت سے مقابلوں میں لڑکوں کو آگے کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کی کمی کی وجہ سے کوئی الگ گروپ نہیں بنتا کہ ان کے لیے الگ مقابلے ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابل دیکھ کر بہت سے مرد کھلاڑیوں کو اعتراض بھی ہوتا ہے، ایک دو دفعہ ان کو ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔
صوفیہ کے مطابق اب مزید ٹریننگ کے لیے وہ عامر خان اکیڈمی اسلام آباد میں ٹریننگ لے رہی ہیں جہاں خواتین کھلاڑیوں کے لیے الگ انتظام موجود ہے، پشاور میں بھی اسطرح کے ٹریننگ سنٹرز ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ان کو کبھی محسوس نہیں ہوا کیونکہ اسلام آباد میں ان کو کھلاڑی کے طور پر بہت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔