افغان امن معاہدہ: ‘بدامنی سے تعلیم حاصل کرنے کا میرا خواب ادھورہ رہ گیا’
خالدہ نیاز
قطری دارالحکومت دوحہ میں اس وقت امریکا اور افغان طالبان کے مابین امن کے قیام کے لئے تاریخی معاہدے پر دستخط کی تقریب جاری ہے اور کچھ ہی دیر قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اپنے وفد کے ہمراہ پہنچ چکے ہیں۔
دوسری جانب کابل میں افغان صدر نے امریکی اور کابل انتظامیہ کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ امید ہے کہ امن معاہدے سے امن قائم ہو جائے گا۔
دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے جو بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوئے لیکن اس بار دونوں جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور کئی ملاقاتوں کے بعد آج قطر میں امریکا اور طالبان تاریخی امن معاہدے پر دستخط کریں گے۔
مذاکرات کے ان ادوار میں اگرچہ خواتین کو زیادہ نمائندگی نہیں ملی تاہم فوزیہ کوفی سمیت دو تین خواتین ان مذاکرات کا حصہ رہی ہیں اور انہوں نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے بات بھی کی ہے۔
ٹی این این نے یہ جاننے کہ لئے کہ افغان خواتین اس امن معاہدے کو کس نظر سے دیکھتی ہیں چند خواتین سے بات کی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کے شہر پشاور میں رہائش پذیر قاندی صافی امن معاہدی کو خوش آمدید کہتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ امن ایک نعمت ہے اور وہ امن کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں، طویل عرصے سے انہوں نے لڑائی، بدامنی اور وطن سے دوری دیکھی ہے اور اب جنگ سے تھک گئی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں قاندی صافی کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ امن معاہدے کے حوالے سے خوش ہیں تاہم انہوں نے دیکھا ہے کہ طالبان پہلے بھی کابل پرحکومت کر چکے ہیں اور وہ دور خواتین کے لیے کچھ اچھا نہیں تھا کیونکہ خواتین کے سارے تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے تھے یہاں تک کہ خواتین گھروں سے بھی باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔
انہوں نے کہا ‘بہت کوششوں کے بعد افغان خواتین نے اپنے حق کے لیے بات کرنا شروع کی ہے، تعلیم کے میدان میں ترقی کی ہے لیکن اب ایک بار پھر خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹوں کاخدشہ ہے۔’
یہ بھی پڑھیں:
افغان امن عمل، معاہدہ پر دستخط آج ہوں گے
واضح رہے کہ طالبان کے 1996 سے 2001 کے دورِ اقتدار میں خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد تھی، افغانستان کو خواتین کے لیے دنیا بھر میں سب سے خطرناک ملک بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق سکول جانے والی لڑکیوں یا کام کرنے والی خواتین پر مسلح گروہوں کے حملے، غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد، زبردستی یا پھر کم عمری میں شادی، جنسی زیادتی اور بنیادی انسانی حقوق تک رسائی وہ عوامل ہیں جو افغان خواتین کی زندگیاں اجیرن بنا دیتے ہیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے قاندی صافی نے بتایا کہ طالبان کی حکومت کے دوران لڑکیوں کے سکول بند ہونے سے ان کا تعلیم حاصل کرنے کا خواب بھی ادھورا رہ گیا، ‘جب 22، 23 سال پہلے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو اس وقت میں میٹرک میں تھی تو سکول بند ہو گئے اور اس دوران میری شادی ہو گئی، پھر میں نے اپنے سسرال میں ایف اے تک تعلیم حاصل کی لیکن میں مزید تعلیم حاصل نہ کر سکی جو میرے دل میں ارمان رہ گیا۔’
سیما سلطان، جو افغانستان کے صوبے ننگرہار سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک صحافی ہیں، نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ بھی امن معاہدے کے حوالے سے خوش ہیں لیکن خدشہ ہے کہ خواتین کو وہ حقوق مل نہ پائیں جن کی وہ حقدار ہیں کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ افغان جنگ میں نقصان مردوں کو پہنچا ہے لیکن ایسا نہیں ہے خواتین نے بھی افغان جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے۔
انہوں نے کہا ‘کسی نے اپنا خاوند کھویا ہے تو کسی سے اس کا بیٹا جدا ہوا ہے جب کہ کوئی بھائی سے محروم ہوئی ہے تو خواتین بھی متاثر ہوئی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ خواتین کو بھی گھر سے باہر مختلف اداروں میں کام اور ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ جب وہ خودمختار ہوں گی تو اس طرح دوسری خواتین کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھا سکتی ہیں۔’
سیما سلطان نے مذاکرات میں خواتین کی نمائندگی کو کم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اتنی کم تعداد میں خواتین سب کی نمائندگی نہیں کر سکتیں لیکن پھر بھی ان کو امید ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا اور جو حقوق ان کو امن معاہدے سے پہلے ملے ہوئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کو اور بھی حقوق ملیں گے۔
افغانستان میں حالات خراب ہونے کے بعد کئی افغان خاندانوں نے پاکستان ہجرت کی جو آج بھی پاکستان میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں میں سے ایک نازش بھی ہیں جو پشاور میں رہائش پذیر ہیں۔ افغان امن معاہدے کے حوالے سے نازش نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ افغانستان میں امن کی باتیں ہو رہی ہیں کیونکہ وہاں کے لوگوں نے امن کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امن معاہدے میں اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی پورے حقوق دیئے جائیں گے اور ان کو اجازت دی جائے گی کہ وہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرسکیں کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی میں مرد اور خواتین دونوں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
کنڑ سے تعلق رکھنے والی صحافی عقلہ ذہین نے بھی امن معاہدہ کو خوش آئند قرار دیا تاہم انہوں نے کہا کہ یہ عمل بہت تاخیر کا شکار رہا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امن معاہدے کے بعد مذاکرات کے جتنے بھی ادوار ہوں ان میں افغان خواتین کو مناسب نمائندگی دی جائے تاکہ وہ بھی اپنے حقوق کی بات کرسکیں۔
ننگرہار صوبے سے تعلق رکھنے والی شگفتہ، جو موبی گروپ میں کام کرتی ہیں، نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا کہ امن معاہدے کے حوالے سے افغان خواتین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ طالبان کے آنے سے ایک بار ان پر تعلیم اور ملازمت کے دورازے بند ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت کے بعد افغان خواتین نے بہت محنت کے بعد مختلف شعبوں میں اپنا لوہا منوایا ہے اور کئی خواتین بہت اچھا کام اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
شگفتہ نے امید ظاہر کی ہے کہ امن معاہدے کے بعد بھی افغان خواتین کو برابری کے حقوق دیئے جائیں گے اور ان کو پیچھے کی طرف نہیں دھکیلا جائے گا۔
نوٹ: تحریر امن معاہدہ ہونے سے قبل لکھی گئی ہے۔ ٹی این این کی کوشش ہو گی کہ امن معاہدے کے بعد افغان شہریوں، مرد و خواتین، کے تاثرات، جذبات، احساسات اور ان کے خیالات قارئین تک پہنچائے جا سکیں۔