"بونیر کے عوام کا بینکوں کی بجائے سکھوں پر اعتماد اور بھروسہ ہے”
عثمان خان
خیبر پختونخوا کا دور دراز ضلع بونیر بین المذاہب ہم آہنگی کا زندہ آمین ہے جہاں عرصہ دراز سے مسلمان اور سکھ مل جل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔
علاقے میں کئی دہائیوں سے مسلمان سکھوں کے ساتھ اپنا قیمتی سامان اور پیسے بطور امانت رکھتے ہیں اور باہم اعتماد اور بھروسے کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران پچاس سالہ سنتھ سنگھ نے بتایا کہ ہم مقامی مسلمانوں کیلئے ایک چھوٹے بینک کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں سود ہے نہ کھاتہ کھولنے کی جھنجھٹ اور نہ ہی سروس چارچز، علاقے کے مضافات سے سیدھے سادے لوگ ہماری دوکانوں میں آتے ہیں اور اپنی نقدی اور قیمتی اشیاء ہمارے ساتھ بطور امانت رکھتے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ہم سکھ اور مسلمان ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں اور یہ بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین شکل ہے۔
سنتھ سنگھ نے بتایا کہ سکھ برادری بونیر کے دور دراز علاقوں چغرزی، دیوانہ بابا، غورغوشتو، چملہ میں آباد ہے لیکن کئی دہائیاں پہلے زیادہ تر خاندان کاروبار کی عرض سے پیربابا منتقل ہوئے ہیں جو ایک کاروباری مرکز تھا اور ہم کاروبار سے وابستہ لوگ ہیں۔
سنتھ سنگھ کے آباؤ اجداد بھی تجارت سے منسلک تھے اور انھوں نے اپنی زندگی اس علاقے میں بسر کی تھی، ماضی کو یاد کرتے ہوۓ بتایا کہ جب وہ چھوٹے تھے تو مسلمان ان کے چچا ترت رام کے پاس رقم اور دیگر قیمتی سامان جمع کرواتے تھے۔
جب ان کے چچا کا انتقال ہوا اور وہ قیمتی سامان جہاں وہ رکھتے تھے جب ان الماریوں کو کھولا گیا تو رنگین دھاگوں اور باقاعدہ نام لکھے ہوۓ کئی رولز دیکھ کر ہم حیران ہوئے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں پیر بابا بازار میں میڈیسن کے کاروبار سے وابستہ نوجوان انیل کمار نے بتایا کہ بونیر میں مسلمانوں اور سکھ کے تعلقات مثالی ہیں، اگر کوئی بندہ باہر سے آئے اور ایک محفل میں بیٹھ جائے تو وہ اس کو پتہ نہیں چلے گا کہ محفل میں مسلمان کون ہیں اور سکھ کون، کیوں کہ علاقے کے بڑے ہمارا بہت احترام کرتے ہیں اور عزت سے ہمیں سیٹھ کے نام سے پکارتے ہیں۔
انیل بتاتے ہیں کہ ہم اتنے خالص لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ مسلمان ہم سے گھر کا کرایہ بھی نہیں لیتے لیکن ابھی علاقہ کمرشلائز ہوا ہے جس کی وجہ سے کچھ تبدلی آئی ہے۔
پرانے زمانے کی سکھ کاروباری شخصیات میں بابو رام، کشن چند، بولا رام، سوبا رام، کوندن رام بہت مشہور تھے، انیل کمار نے بتایا کہ ہمارے بڑے ہمیں یاد کراتے ہیں کہ ہمارے آباو اجداد امانت کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ مسلمان جو نوٹ امانت میں دیتے تھے تو اس کو تبدیل بھی نہیں کرتے تھے۔
سنتھ سنگھ نے یہ بھی بتایا کہ جب علاقے میں نئے نئے بینک بنے تو لوگ اس میں دلچسپی نہیں لیتے تھے کیوں کہ ان کیلئے ہمارے پاس رقم اور سامان سونا وغیرہ رکھنا آسان ہوتا تھا، اب بھی میرے پاس بہت لوگوں کی امانتیں موجود ہیں۔
پیربابا بازار کے صدر اور کافی عرصے سے کریانے کی دوکان چلانے والے سید واحد لالا نے بتایا کہ سکھوں کے پاس امانتیں رکھنے کی دو وجوہات ہیں، ایک یہ کہ وہ کاروباری لوگ ہیں اور نقدی کا کاروبار کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ایماندار ہیں حیانت نہیں کرتے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سکھوں کے پاس رقم جمع کروانے کا رواج آج بھی موجود ہے، جب سے یہ عمل شروع ہوا ہے اس میں کم تبدیلی آئی ہے، علاقے کے زیادہ تر لوگ بیرون ملک اور خصوصاً ملیشیاء میں مقیم ہیں جو سکھ تاجروں کے بینک اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرتے ہیں اور جب اہل خانہ کو پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ان سے وصول کرتے ہیں۔
سید واحد لالا نے مزید بتایا کہ میری پوری زندگی پیربابا بازار میں گزر گئی، اس میں صرف ایک واقعہ رونما ہوا ہے جس نے پورے ضلع کو حیران کر دیا تھا، بابری مسجد کے واقعے کے بعد نامعلوم افراد نے پیربابا میں ایک گوردوارہ جلایا تھا لیکن اس وقت علاقے کے لوگوں نے اپنے سکھ بھائیوں کو اپنے گھروں میں تخفظ فراہم کیا تھا اور ہر قسم کی سہولیات بھی دیتے جو بین المذاہب ہم آہنگی کی نہ بھول والی مثال ہے۔
سید واحد لالا آگے بتاتے ہیں کہ سکھ ہمارے بھائیوں کی طرح غمی، خوشی، ثقافتی اور ثقافتی حتیٰ کہ مذہبی تقریبات تک میں شریک ہوتے ہیں۔
بونیر میں تقریباً آٹھ سو کے قریب سکھ گھرانے آباد ہیں اور ضلع کے مختلف علاقوں میں ان کے چار بڑے گردوارے ہیں۔