خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ موبائل فون ہے’

 

خالدہ نیاز

نوشہرہ کے علاقے کاکاصاحب میں عوض نور کے قتل کے بعد جنسی زیادتی کے واقعات میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایس پی انویسٹی گیشن نوشہرہ سجاد احمد کے مطابق 2019 میں ان کے پاس 15 ایسے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی یا کوشش کی گئی جب کہ 2020 میں صرف ایک مہینے میں ان کے پاس رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 6 ہے۔

نہ صرف نوشہرہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان واقعات میں اضافے کی کیا وجوہات ہیں اس سلسلے میں ہم نے چند افراد سے بات کی ہے۔

ٹیکنالوجی کا غلط استعمال

نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے گل ریز کا کہنا ہے کہ آج کل ہرکسی کے پاس چاہے بچہ ہے یا جوان موبائل موجود ہے اور اس کا جو دل چاہتا ہے وہ اس میں دیکھتا ہے اور پورن ویڈیوز بھی آسانی سے مل جاتی ہے جس کی وجہ سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔

قانون کے طالبعلم گل ریز نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا’ مارکیٹ میں اور انٹرنیٹ پر آسانی سے پورن ویڈیوز مل جاتی ہے جس سے نوجوانوں کے ذہنوں پر غلط اثر پڑتا ہے اور وہ اس طرف راغب ہوتے ہیں’

رضا جوکہ نوشہرہ کا رہائشی ہے اور ایک سوشل ورکرہے وہ بھی گل ریز کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے کی نسبت کیسز میں زیادتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اتنا مقبول نہیں تھا جبکہ اب ہرکسی کے پاس انٹرنیٹ میسر ہوتا ہے جس میں وہ سب کچھ دیکھتے ہیں اور آسانی کے ساتھ شیئربھی کیا جاتا ہے۔

انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ بچوں کے ساتھ جنسی واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور نہ صرف نوشہرہ بلکہ پاکستان کے ہرشہر میں روزانہ کی بنیاد پرریپ کیسز ہوتے ہیں لیکن سب رپورٹ نہیں ہوتے۔

بچے آسان ہدف

بچوں کو کیوں زیادہ جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ اس حوالے سے گل ریز کا کہنا تھا کہ بچے آسان ہدف ہے کسی کو بھی جب موقع مل جاتا ہے تو وہ بچوں سے فائدہ اٹھالیتے ہیں۔

رضا کا بھی کہنا ہے بچے اکثر اوقات ڈر جاتے ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا والدین یا کسی اور کو بتا بھی نہیں سکتے اس لیے ان کو بہت ہی زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں والدین کی بھی غلطی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ نہیں رکھتے یا ان پر سختی بہت کرتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی واقعہ ہوبھی جائے تو وہ ان کو بتانے سے ڈرتے ہیں۔

جبکہ دیار جوکہ ایک سرکاری سکول کا استاد ہے اور سیکنڈ ٹائم یونیورسٹی میں بھی پڑھاتے ہیں ان کا خیال ہے کہ ‘ بچے جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو بھی ان کو والدین نہیں سمجھاتے کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے؟ اگر ان کو کسی چیز سے منع کرتے ہیں زیادہ سے زیادہ ان پرپیسے بند کرتے ہیں تو ایسے میں بچے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے غلط راستے کا انتخاب کرلیتے ہیں’

سیکس ایجوکیشن سے دوری

دیار کا ماننا ہے کہ جنسی زیادتی واقعات میں اس وقت کمی آسکتی ہے جب ہم اپنے طلباء کو سیکس ایجوکیشن دے’ جب بھی ہم سنتے ہیں کہ آسٹریلیا اور باقی ممالک میں طلباء کو سیکس ایجوکیشن دی جارہی ہے تو اس کو ہم غلط سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک مثبت چیز ہے کیونکہ اگر ہم دیکھیں تو اس حوالے سے اسلامی کتابوں میں بھی رہنمائی موجود ہے لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا’

صحافی ذیشان کاکاخیل بھی سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو گڈ اور بیڈ ٹچ کے حوالے سے نہیں بتایا ان کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ کونسی چیزیں اچھی ہے اور کونسی بری۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریپ کیسز کی زیادتی کی وجوہات میں ایک یہ بھی ہے کہ ملزمان کوسزا نہیں ملتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے بہت سارے کیسز ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے جس کی مختلف وجوہات ہے مثلا کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ کس سے رجوع کریں، کوئی اپنی عزت کی خاطرچپ رہتا ہے۔

بدلہ لینے کے لیے بھی جنسی تشدد کیا جاتا ہے

ایس پی انویسٹی گیشن نوشہرہ سجاد احمد نے بچوں پرجنسی تشدد کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ کیسز میں ملزم بدلہ لینے کے لیے ایسا کرتے ہیں جیسا کہ عوض نور کیس کے ملزم نے عدالت میں بیان دیا ہے کہ ان کو عوض نور کے ماموں نے دو تین مرتبہ جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے جبکہ کچھ کیسز میں ملزمان کو لگتا ہے کہ بچے تو گھر والوں کو نہیں بتا سکتے لہذا ان کو اپنا ہدف بنالیتے ہیں۔

ملزمان کی عمروں کے حوالے سے ایس پی ایویسٹی گیشن نے کہا کہ ان کی عمریں 11 سے 55 سال تک بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو دن پہلے ہی انہوں نے ایک کیس کے دو ملزمان کو گرفتار کیا ہے جن میں سے ایک ملزم کی عمر15 جبکہ ایک کی 11 سال ہے اور جس بچے کو انہوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اس کی عمر6 سال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘بچے ایک منٹ کے لیے نظروں سے اوجھل ہوجائیں تو خوف طاری ہوجاتا ہے’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی تک ان کے پاس جتنے بھی کیسز رجسٹرڈ ہے سب کے ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ گل ریز کا کہنا ہے کہ پشتون معاشرے میں اب بھی لوگوں میں شعور کی کمی ہے کیونکہ بہن بیٹی کا معاملہ ہوتا ہے تو اکثر لوگ ایسے واقعات کو دبا دیتے ہیں اور پھر جو اس کے خلاف ایف آئی آر وغیرہ درج کرتے ہیں اور آواز اٹھاتے ہیں تو وہ بھی یہی گلہ کرتے ہیں کہ ان کو انصاف نہیں ملتا۔

گلریز نے کہا کہ سوشل میڈیا پرجو واقعہ وائرل ہوجائے اس پرحکومت ایکشن لے لیتی ہے اور ان کو انصاف مل جاتا ہے لیکن ایسے بہت سارے کیسز ہیں جو آج تک انصاف کے منتظر ہیں اور اس کے علاوہ ایسے کیسز بھی جن میں بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ان کے والدین کو بھی بلیک میل کیا جاتا ہے۔

ریپ کیسز میں کمی کیسے آسکتی ہے

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا میں پارلیمانی کمیٹی نے بچوں سے زیادتی اور تشدد کی روک تھام کے لئے سخت سزائیں تجویز کی ہیں جن میں مجرم کی پھانسی کی ویڈیو اور آڈیو کی تشہیر بھی شامل ہے۔ کمیٹی نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ بچوں سے ذیادتی میں ملوث افراد کی سزاوں میں کسی قسم کی معافی نہیں ہوسکے گی اور عمر قید کی سزاء طبعی موت تک کی ہوگی، جبکہ سرعام پھانسی کی بجائے سزائے موت پانے والے مجرموں کی پھانسی کی ویڈیو اور آڈیو بنا کر اس کی تشہیر کی جاسکتی ہے۔

کمیٹی نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی ہراسانی یا زیادتی کے مرتکب افراد کو کسی بھی تعلیمی ادارے میں ملازمت نہیں دی جاسکے گی، اور ایسے افراد کے نام جنسی ہراسانی کے لئے مختص رجسٹر میں درج کئے جائینگے جبکہ اسکے ساتھ ساتھ ان کی تفصیلات کمیشن کی ویب پر اپ لوڈ اور نادرا کوبھی فراہم کی جائیں گی۔

جنسی ہراسانی کے مرتکب افراد ایسی ٹراسپورٹ کی سہولت بھی استعمال نہیں کرسکیں گے جس میں بچے سوار ہوں۔ کمیٹی نے فورنو گرافی میں ملوث افراد کے لئے چودہ سال تک قید کی سزاء اور پچاس لاکھ روپے تک کے جرمانے تجویز دی ہے۔

جبکہ چائلڈ ٹریفکنگ کے لئے عمر قید تک کی سزاء تجویز کی گئی ہے، ٹریفکنگ میں ملوث افراد کو کم سے کم سزاچودہ سال تک ہوگی جبکہ پچاس لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مطابق اگر ان تجاویز کی روشنی میں قانون سازی کی جائے اور اس پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ والدین بھی اپنے بچوں پر نظر رکھیں تو جنسی تشدد کے واقعات میں کافی حد تک کمی آسکتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button