”رات اپنے بستر پر سوئی صبح آنکھ کھلی تو خود کو بیٹے کے ہمراہ جلال آباد میں پایا”
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخواہ میں رہائش پذیر افغانی خاتون نے بتایا ہے کہ اُن کا شوہر کپڑے کا کاروبار کرتا تھا اور ایک رات ان کے خالہ زاد بھائی ان کے شوہر کی غیرموجودگی میں رات گزارنے کیلئے گھر پر آئے، ”جب صبح میں نے آنکھ کھولی تو میں نے اپنے آپ کو اپنے ایک بچے کے ساتھ افغانستان کے صوبے جلال آباد میں پایا اور اگلے ہی دن میرا نکاح زبردستی ایک انجانے شخص سے کروا دیا گیا۔
چونتیس سالہ خاتون (جن کی شناخت خفیہ رکھی جا رہی ہے) ہمسایہ ملک افغانستان کے صوبہ مزار شریف سے تعلق رکھتی ہیں اور تقریباً 14 سال سے خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کر چکی ہیں۔
خاتون اپنی باتوں میں اپنے سابقہ شوہر، والد اور خاندان کے دیگر افراد کی بابت کہتی ہیں کہ ان کے والد نے 11 سال کی عمر میں ان کے چچازاد بھائی سے ان کی شادی کروائی جس سے انہوں نے چار بچوں کو جنم دیا۔
ان کا شوہر افغانستان کے بلخ صوبے میں کپڑے کا کاروبار کرتا تھا اور کابل سے مال لاتا تھا اور اس دوران وہ دو تین دن تک وہاں رُکے رہتا تھا، کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ جب وہ گھر پر نہیں تھا ان کا خالہ زاد بھائی ان کے گھر رات کیلئے رُکا۔
"ہم سب اکٹھے سو گئے اور اگلی صبح جب میں نے آنکھ کھولی تو میں نے اپنے چھوٹے بچے سمیت اپنے آپ کو جلال آباد میں کسی انجان شخص کے کمرے میں پایا، جس کے بعد زبردستی میرا نکاح پڑھوایا گیا۔
تقریباً دو سال گزر گئے جس سے میرا ایک بچہ بھی پیدا ہوا، پھر اُس شخص نے مجھے طلاق دے دی اور مجھ سے میرے دونوں بچے چھین لئے اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور میں دوسرے افغان دوست کو تقریباً 4 لاکھ روپے کے عوض بیچ دیا جس سے ایک بچہ بھی پیدا ہوا مگر اس نے بھی طلاق دے دی۔”
افغان خاتون کا کہنا ہے پشاوری افغان مہاجر نے تیسری دفعہ ایک دلال سے میری بات کی اور مجھے 2 لاکھ روپے کے بدلے میں اس کے ہاتھ فروخت کر دیا۔
"دلال نے مجھے بتایا کہ کل سے تم نے دھندہ شروع کرنا ہے، میں نے پوچھا کہ کیسا دھندہ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے حیات آباد میں ایک گھر کرائے پر لیا ہے جہاں دیگر خواتین کے ساتھ تم نے بھی لوگوں کو خوش کرنا ہو گا اور اسی کے بدلے میں تمھیں پیسے ملیں گے۔”
دلال نے کہا کہ "پیسوں کا ایک حصہ تمھیں ایک مجھے ملے گا اور ایک حصہ گھر کے کرائے میں خرچ ہو گا۔”
خاتون کا کہنا ہے کہ ایک دن ڈیرے پر ایک شخص اپنی ہوس مٹانے کیلئے آیا اور سب سے پہلے اُس نے مجھ سے اپنی ہمدردی دکھانے کی کوشش کی جس پر میں نے اُسے ٹوکا اور کہا کہ جلدی اپنا کام کرو او دفعہ ہو جاو۔
تقریباً ایک ہفتہ بعد پھر وہی شخص ڈیرے پر آیا اور دلال سے میری بات کی جس پر دلال نے مجھے پھر دو لاکھ روپے میں اُس کے ہاتھ فروخت کر دیا اور وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔
قحبہ خانے پر مجرمانہ ذہنیت کے مختلف قسم کے لوگ آتے تھے جہاں سے مجھے کئی کئی راتوں کیلئے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ رات کو وہی لوگ مختلف قسم کی نشہ آور اشیا مثلاً شراب، چرس اور آئس کا استعمال کرتے تھے جن کے ساتھ مجھے بھی شراب اور چرس کی لت پڑ گئی تھی۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے خاتون نے اپنا پرس کھولا اور سگریٹ کا ڈبہ نکال کر سگریٹ سلگا لیا، کہا کہ مجھے خریدنے والے شخص نے گھر پہنچنے سے پہلے بتایا کہ تم نے اپنا دھندہ جاری رکھنا ہو گا۔
وہاں پر بھی اپنا دھندہ جاری رکھا مگر حالات اتنے تبدیل ہوئے کہ پہلے میں گیسٹ ہاؤس میں اپنا دھندہ کرتی تھی اب گلی بازاروں میں لوگ فون کر کے اپنے ڈیروں پر بُلانے لگے۔
خاتون نے بتایا کہ کہ کبھی کبھار میں کپڑے خریدنے کیلئے صدر بازار میں سمیع اللہ نامی ایک دوکاندار کے پاس جایا کرتی تھی جہاں پر اُن سے گپ شپ ہوئی اور ان کو اپنی زندگی کا سارا قصہ سُنا دیا۔
میری داستان سننے کے بعد انہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر تم چاہو تو میں تمھیں اپنے گھر میں اپنی بہنوں کی طرح رکھوں گا۔ ‘میرے گھر میں صرف ایک ماں ہے اُسی کی خدمت کرنا اور بے فکر ہو کر اپنی عزت کی زندگی گزارنا۔’
اس پر سوچنے کیلئے میں نے اُن سے وقت مانگا، یہ بات کرتے ہوئے اُس کی سگریٹ بھی ختم ہو گئی اور وہ زاروقطار رونے لگ گئی، کہا کہ اگر اس کے بعد میں راہ راست پر آتی تو آج ذلالت کی اس زندگی سے نکل چکی ہوتی۔
خاتون نے بتایا کہ رات کو میں نے اُس گھر کو چھوڑنے کا ارادہ کیا اور صبح ہوتے ہی دکاندار کے پاس پہنچ گئی جہاں سے وہ مجھے اپنی گھر لے گیا اور اپنی ماں سے کہا کہ یہ میری بہن ہے اس کا کوئی والی وارث نہیں اور یہ یہیں پر رہے گی۔
یقنیاً وہ میرے ساتھ بھائیوں کی طرح سلوک کرتے تھے، میں نے پکا ارادہ کیا تھا کہ یہ کام آئندہ کیلئے نہیں کروں گی۔
اس وقت میری عمر تقریباً 23 سال ہو چکی تھی، چونکہ میں جوان بھی تھی اور جنسی تسکین لینے کی عادی بھی بن چکی تھی، کبھی کبھی میرے اوپر جنسی خواہشات غالب آ جاتی تھیں مگر میں اندھیروں میں پھر سے خود کو دھکیلنا نہیں چاہتی تھی۔
مگر ایک دن جنسی تسکین لینے کا غلبہ اتنا شدید طاری ہو گیا کہ ایک دن سمیع اللہ کی ماں کسی شادی پر گئی اور سمیع اللہ خود دکان پر گیا تو میں موقع پاتے ہی گھر سے نکل گئی۔
تقریباً ایک کلومیٹر کا پیدل سفر کرتے ہوئے ہر شخص کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور انتظار میں کہ کون بندہ ہو گا جو مجھے اپنے ساتھ لے جائے گا مگر کسی نے کوئی لفٹ نہیں دی۔
پھر میں سڑک کنارے کھڑی ہوئی اور اچانک ٹیکسی کیب رُکی اور میں اس میں بیٹھ گئی، ڈرائیور نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے میڈم، میں نے جواب دیا آپ کی مرضی۔ میرا جواب سنتے ہی وہ خوشی سے پھولے نہیں سمایا اور فوراً موبائل فون نکال کر کسی دوست کو کال لگائی کہ کمرہ سیٹ کرو، ”اچھا مال اُٹھا کے لا رہا ہوں۔”
وہاں پہنچنے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور اور اس کے دوست کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے گزارے، واپسی پر انہوں نے دو ہزار روپے بھی دیئے اور گھر تک بھی پہنچایا۔
اس طرح ایک دفعہ پھر مجھے یہ لت پڑ گئی اور اسی کے نتیجے میں، میں سمیع اللہ اور اس کی ماں کو بغیر کسی اطلاع کے گھر سے بھاگ گئی اور ایک دھندہ کرانے والی خاتون کے پاس چلی گئی، آج بھی انہی کے پاس رہتی ہوں۔
”اپنے دھندے میں پاکستان کے سارے شہروں کے چکر لگائے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ میں افغانستان چلی جاؤں مگر مجھے ڈر ہے کہ کہیں خاندان والے جان سے ہی نہ مار دیں۔”