جرائم

سال 2022 کی نسبت 23 میں خودکش حملوں میں 93 فیصد اضافہ ہوا ہے؛ رپورٹ

رفاقت اللہ رزڑوال

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز (PICSS) کے مطابق 2022 کی نسبت 2023 میں خودکش حملوں میں 93 فیصد اضافہ ہوا جس میں مجموعی طور پر 329 افراد جاں بحق جبکہ 582 افراد شدید زخمی ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ علاقے قبائلی اضلاع ہیں جہاں پر 13 خودکش حملوں میں 206 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر خیبرپختونخوا میں 10 حملوں میں 306 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
سیکورٹی ماہرین دہشتگرد حملوں میں اضافے کی وجہ پاکستانی طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی تعطل، جہادی گروپس کی افرادی قوت میں اضافہ اور افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر کنٹرول میں کمزوری سمجھتے ہیں۔

پی آئی سی ایس ایس نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ سال 2023 حملوں میں پریشان کُن اضافہ ہوا جو 2014 کے بعد حملوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جس میں 47 دھماکوں کے نتیجے میں 683 افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2022 کی نسبت 2023 میں اموات میں 226 فیصد جبکہ زخمیوں کی تعداد میں 101 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سیکورٹی امور کے ماہر و صحافی مشتاق یوسفزئی پی آئی سی ایس ایس کی رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالیہ حملوں میں اضافے کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ مسلح گروپوں کے ساتھ پاکستانی مذاکرات کے خاتمے سے انکی امید ختم ہوگئی اور انکو خودکش حملوں کے ذریعے پیغام دیا کہ اگر انہیں محفوظ راستہ فراہم نہیں کیا جاتا ہو تو وہ اپنی حکمت عملی بدل کر سکیورٹی فورسز پر حملے کرائیں گے۔
دوسرا یہ کہ انہوں نے افغان طالبان سے سیکھا کہ اگر ان کے پاس عوامی حمایت نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہوسکتے تو اسی حکمت عملی کو اپناتے ہوئے عوام کی جگہ سیکورٹی فورسز پر حملے شروع کئے۔

مشتاق یوسفزئی سیکورٹی فورسز کی اعداد و شمار کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ 2021-22 کے دوران پاکستان میں افغانستان سے 6 سے 8 تک مسلح افراد داخل ہوئے تھے جہنوں نے ان لوگوں پر محنت کی جو انکے نظریاتی حمایتی تھے اور اسی طرح ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

تاہم دوسری جانب سنیئر صحافی افتخار فردوس بھی مسلح تنظیموں کی تعداد میں اضافے کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب مسلح افراد کی تعداد بڑھ جائے تو وہ خودکش حملوں پر توجہ دیتے ہیں۔
افتخار فردوس کہتے ہیں ” اگر ہم مسلح تنظیموں کی حکمت عملی کو دیکھیں تو جب بھی انکو سرپلس جنگجو مل جائیں تو وہ گوریلہ جنگ سے خودکش حملوں کا رُخ کر دیتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے”۔
مگر افتخار کا ماننا ہے کہ بیشتر خودکش حملوں میں ٹی ٹی پی ملوث نہیں بلکہ وہ گروپس ملوث ہیں جن کی واضح بنیاد موجود نہیں، ان میں تحریک جہاد پاکستان اور سال کے آخر میں ہونے والے حملے انصار الاسلام اور نارتھ وزیرستان میں حافظ گل بہادر نے ذمہ داریاں قبول کی ہے۔

تاہم افتخار فردوس پاکستان کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں جس میں خودکش حملوں میں ملوث افراد کا تعلق افغانستان سے بتایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں "اس میں کافی حد تک صداقت ہے کہ اگر پاکستان میں خودکش حملے پاکستانی شہری بھی کرے تو اس کا کسی نہ کسی سطح پر تعلق افغانستان سے نکلتا ہے مگر جب تک دونوں ممالک کے درمیان کوئی امن معاہدہ نہ ہو تو یہ 2024 میں بھی امن کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوگا”۔

مگر دوسری جانب سے افغان ترجمان ذبیح اللہ نے اپنے بیانات میں افغانستان سے مسلح افراد کی حملوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی زمین کسی بھی قسم کی دہشتگردی کیلئے استعمال ہونے اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
سال 2023 کے حوالے سے پاکستانی فورس کی جانب سے جاری کردہ خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے 18 ہزار 736 انٹیلی جنس بیسڈ اپریشنز کے دوران 556 دہشتگرد مارے ہیں جبکہ 5161 گرفتار کئے گئے ہیں۔ دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اپنی سالانہ اعداد و شمار میں 881 حملوں کا کہا ہے جن میں 970 ہلاکتوں اور 23 افراد کی گرفتاریوں کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button