بلاگزلائف سٹائل

وقت تیزی سے گزرتا گیا لیکن جب ہوش آیا تو جوانی ختم ہو چکی تھی

 

عشا اسلم

جس حساب سے ہماری موجودہ نسل بے فکری سے زندگی گزار دیتی ہے اور اپنا قمتی وقت بے جاں کاموں میں لگا دیتی یقینا ایک وقت ضرور آتا ہے جب پچھتاوں کے سوا اور کچھ باقی نہیں رہتا۔

اگرچہ جوانی بے فکری ، آزادی ، خوابوں کی دنیا اور لاپرواہی کا نام ہے لیکن کیا ہم اس بے فکری ، آزادی ، خوابوں کی دنیا اور لاپرواہی کو قابو میں رکھنا جانتے ہیں؟ نوجوان نسل اس حد تک اپنے مزوں میں مشغول ہوجاتی ہیں کہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنا تک بھول جاتی ہے۔ ایک وقت آتا جب ہم پیچھے دیکھتے ہے تو جوانی صرف بربادی کی شکل پیش کررہی ہوتی ہے لیکن اس وقت ہاتھوں میں صوائے پچھتاوے اور افسوس کے کچھ باقی نہیں رہتا۔

ایسا ہے کیوں؟ کیوں ہم وقت کے ضائع کا احساس نہیں کرتے ؟ کیوں ہمیشہ کاش میں رہ کر بات کی جاتی ہیں؟

موجودہ زمانہ ٹیکنالوجی کا غلام ہے اور آبادی کا بڑا حصہ نوجوان اس میں سب سے آگے ہے۔ اس کا ذمہ دار کون؟ معاشرہ نواجون خود یا پھر بدلتا وقت ؟ نوجوان ٹیکنالوجی کا استمعال اس حد تک ضروری سمجھ چکے ہے کہ اب ہمارا اس کے بغیر گزارا مشکل نہیں ناممکن ہوچکا ہے ۔۔۔۔ فیس بک ، انسٹاگرام اور ایسے ہی سوشل میڈیا ایپس کو ہم اتنا وقت دیں چکے ہیں کہ ہمیں وقت کا ضیاع نظر ہی نہیں آتا ۔۔۔۔ گھنٹوں گھنٹوں انہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وقت گزار دیتے ہے کہ وقت کی اہمیت ہی بھول چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی دنیا میں وقت کو پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے علاوہ ایک دوسری وجہ وقت کے ضیاع کی غیر ضروری کاموں میں مشغولیت بھی ہے۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی نفس پر قابو پانا ایک بڑی مشکل ہے۔ غیر ضروری سرگرمیاں، نشہ، محفلیں ، آزادی میں دھن اور مست مگنی میں جوانی کا آدھے سے زیادہ وقت برباد ہوجاتا ہے۔ یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ایک بار جوانی میں وقت برباد کرنے کی لت لگ جائے تو وہ عمر بھرکا حصہ بن جاتی ہے۔ ایک بار مزے کرنے کا چسکا لگ جائے تو جوانی کے قیمتی بہتے وقت کی پرواہ سے آزادی مل جاتی ہے نشوں کی دنیا اتنی حسین لگتی ہے کہ پیچھے چھوٹتا وقت نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے۔

جیسا وہ ہے میں کیوں نہیں ہوں؟؟؟؟

ایک یہ بڑی عجیب سی چیز جوانی کے انمول وقت کو برباد کردیتی ہے۔ ہم دوسروں کو اتنا اپنانے لگ جاتے ہیں کہ خود کو بھول جاتے ہیں۔ جیسا وہ ہے ، جو اس کے پاس ہے ، جو وہ کرتا ہے، ان سب میں نوجوان خود کو وہ بنانے میں لگ جاتے ہیں جیسے وہ خود نہیں ہوتے۔ دوسروں کو دیکھ کر ان جیسا کرنے میں نوجوانی کی ایک طویل عمر بیت جاتی ہیں۔ دوسروں جیسا بنتے بنتے،دوسروں جیسا کرتے کرتے اتنے اندھے ہوجاتے ہیں کہ یہ تک نہیں نظر آتا کہ جوانی کا وقت ڈوبتا چلا جارہا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ جوانی کا وقت نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔

بچہ جب جوانی کی طرف قدم بڑھانے لگتا ہے تو ماں کا سب سے زیادہ فرض بنتا ہے کہ وہ اسے زندگی کا خلاصہ بتا دیں کہ کس طرح اگر شروع میں ہی اگر وہ ایک بار وقت کا ضائع کرنے میں لگ گیا تو اس کے بعد واپس نہیں آسکتا۔ صحیح ، غلط ، اچھا ، برا ۔۔ ہر ایک چیز کے فرق سے آگاہی دی جائے، سب سے ضروری کام ، کھیل ، پڑھنے، مزے، ذمہ داری ہر ایک چیز کا اپنا وقت ہے یہ ضرور اور لازمی جز ہے۔ اس کا معلوم ہوجائے تو وقت کا ضیاع اور وقت کی اہمیت دونوں کا پتہ چل جاتا ہے۔ باقی کچھ وقت کا استمعال اور کہاں پر وقت کو لگایا جائے یہ نوجوان کے اپنے ہاتھ میں سب سے زیادہ ہے جو ایک بار سیکھ گیا تو سیکھ گیا ورنہ کاش کرتا رہ جائے گا۔

۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button