خیبر پختونخوا پولیس دہشتگردوں کا آسان ہدف بن گئی
محمد فہیم
خیبر پختونخوا پولیس دہشتگردوں کا آسان ہدف بن گئی، ایک ہفتے کے دوران پولیس پر پشاور میں دوسرا ٹارگٹڈ حملہ ہو گیا جس میں انٹیلی جنس بیورو کے ایک اہلکار اور ایک پولیس اہلکار کو قتل کر دیا گیا جبکہ صوبے کے مختلف علاقوں میں بھی پولیس اہلکاروں کو مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
کاﺅنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کے اعدادوشمار کے مطابق 5 ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں روزانہ اوسطاً دہشتگردی کا ایک واقعہ رپورٹ کیا گیا ہے۔ دسمبر 2021 سے لے کر 17 مئی تک، 167 دنوں کے دوران، صوبے میں دہشتگردی کے 177 واقعات رپورٹ کئے گئے ہیں جن میں خودکش حملوں، ریمورٹ کنٹرول بم دھماکوں، چیک پوسٹ پر حملوں، راکٹ لانچر اور ٹارگٹ حملے شامل ہیں۔ صوبہ بھر میں 35 ٹارگٹ حملوں میں اب تک سکیورٹی فورسز کے 51 اہلکار قتل کر دیئے گئے ہیں۔ پولیس اہلکار چیک پوسٹ اور عوام کے ساتھ براہ راست رابطہ کرنے کے باعث آسان ہدف کے طور پر سامنے آئے ہیں اور ان پر حملوں کی تعداد میں بھی اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پولیس پر حملے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس دلانے کی کوشش
خیبر پختونخوا پولیس پر مسلسل حملے اور ان کی شہادتوں کے حوالے سے سینئر صحافی طارق وحید نے بتایا کہ پولیس پر حملہ ایک حکمت عملی کا نتیجہ ہے، پولیس کو شہری اپنے تحفظ کا امین سمجھتے ہیں اور ان پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں پولیس کا مورال بھی گرانے کی کوشش ہوتی ہے اور شہریوں کو بھی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کا تحفظ کرنے والے خود محفوظ نہیں ہیں جس کے نتیجے میں شہری بھی عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں تاہم اس بار پولیس کا ردعمل مختلف ہے، مسلسل حملوں کے باوجود پولیس کا مورال بلند ہے اور ان کا ان حملوں کے بعد کارروائیوں میں تیزی لانا انتہائی حوصلہ افزاء ہے۔
طارق وحید نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں بدامنی کوئی نئی بات نہیں تاہم اس بدامنی کے نتیجہ میں پولیس کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ ماضی سے مختلف ہیں، ماضی کی پولیس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان پر حملہ کرنے والا کون ہے اور اس کا مقصد کیا ہے لیکن اس مرتبہ پولیس کی استعدادکار اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ دہشتگردوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔
سیاسی و معاشی عدم استحکام انتہائی خطرناک قرار
پشاور میں سکھ تاجروں اور اہل تشیع برادری پر حملوں کو ماہرین نے عالمی سطح پر جاری دہشتگردانہ کارروائیوں کا حصہ قرار دیا ہے جبکہ ملک میں جاری سیاسی اور معاشی عدم استحکام کو بھی دہشتگردی کے خاتمے میں رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار فردوس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سرحد کی دونوں جانب اہل تشیع اور سکھ برادری پر حملے کئے گئے ہیں اور انہیں نشانہ بنایا گیا ہے، سیاسی جماعتوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے اور جمعیت علمائے اسلام ان کے نشانہ پر ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے، پشاور میں جن حملہ آواروں کو مارا گیا ہے ان کا ہدف گرجا گھر تھا جو یہ واضح کرتا ہے کہ اس تنظیم کا ہدف مذہب (منافرت) ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دہشتگرد گروہ انتہائی تکنیکی اعتبار سے کام کرتا ہے، یہ تنظیم دیگر تنظیموں سے مختلف ہے، ماضی میں دیکھا جائے تو ملک میں 2014 میں ایک سیاسی اتفاق رائے دہشت گردی کیخلاف پیدا ہوئی جس کے 8 سال بعد ہمیں امن نصیب ہوا لیکن اس وقت ملک میں ایک سیاسی انتشار ہے، ملک میں جاری معاشی انتشار اور بحران بھی انتہائی خطرناک ہے، اگر یہ صورتحال بہتر نہ ہوئی تو حالات مزید بگاڑ کی جانب جا سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا پولیس کی جانب سے اس حوالے سے مسلسل کارروائیاں بھی کی جا رہی ہیں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے ایک خاص طریقہ کار کے تحت حملے کرنے کے بعد ردعمل کے طور پر پولیس کے کامیاب آپریشن بھی سامنے آ رہے ہیں، پولیس نے کالعدم تنظیموں کے درجنوں دہشتگردوں کو آپریشنز کے نتیجہ میں گرفتار اور مار دیا ہے تاہم چند مقامات پر ہونے والے دہشتگردی کے واقعات نے صوبہ بھر کے عوام میں بے چینی پھیلا دی ہے جبکہ سرحد پار بھی یکساں نوعیت کے واقعات کے بعد بین الاقوامی دہشتگردی کے خطرات کو اس خطے پر دوبارہ سے مسلط کر دیا گیا ہے۔