جاوید محمود
خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ایک اور خواجہ سرا اپنے دوست کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ چارسدہ پولیس کے مطابق واقعہ جمعہ کی رات ڈیڑھ بجے پیش آیا۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں تھانہ سٹی پولیس کے ترجمان صفی جان نے بتایا کہ مقتول خواجہ سراء کی شناخت جاوید عرف گلالئی کے نام سے ہوئی ہے جو بٹ خیلہ کا رہائشی تھا اور تقریباً تین ماہ سے چارسدہ میں مقیم تھا، گذشتہ رات اپنے ہی دوست نے جسے زبانی تکرار پر گولی مار کر قتل کر دیا۔
ترجمان کے مطابق مقدمے میں شاہ فیصل ولد واصل خان سکنہ پائندہ خیل چارسدہ کو نامزد کیا گیا ہے جس کے خلاف دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، ملزم واردات کے بعد فرار ہو گیا، جس کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس پہلے بھی چارسدہ میں خواجہ سراوں پر فائرنگ اور تشدد کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونحوا کے سول سوسائٹی نیٹ ورک کے رکن تیمور کمال کا کہنا ھے کہ صوبہ میں کئی سالوں سے خواجہ سراوؤں کیخلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔
ان کے مطابق خیبر پختونخوا میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران 74 خواجہ سراوں کو قتل جبکہ سینکڑوں کو زخمی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ”صوبہ بھر میں خواجہ سراؤں کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں، اگر کوئی خواجہ سرا اپنی شکایت متعلقہ تھانہ لے جائے تو صرف سفید کاغذ کی حد تک اس کی شکایت درج کی جاتی ہے یا اگر قتل کی ایف آئی آر کاٹی بھی جائے تو صرف 302 کی حد تک مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔”
تیمور کمال سمجھتے ہیں کہ اگر ایف آئی آر میں قتل کے مقدمے کے ساتھ زنا باالجبر، تشدد اور دیگر مقدمات درج کئے جائیں اور تفتیش سائنسی بنیادوں پر کی جائے تو ملزمان کی بریت مشکل ہو گی، ”رواں سال خواجہ سراؤں کے 7 ایسے واقعات ہوئے جن میں خواجہ سراوں کو قتل، بے لباس یا ان کا سر مُنڈوایا گیا، زیادہ تر وجوہات میں دوستی نہ کرنے، بھتہ نہ دینے یا دوسرے افراد کے ساتھ اُٹھک بیٹھک شامل ہیں۔”
خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم کے سربراہ قمر نسیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ پشاور میں غزالہ نامی خواجہ سرا کے گھر پر فائرنگ کی گئی تھی، وجہ عناد ان سے بھتے کا تقاضا بتایا جا رہا تھا، اس میں بھی ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
ان کے مطابق اسی طرح رواں سال جنوری میں کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ایک خواجہ سراء کی زبردستی میں بنائی گئی ننگی ویڈیو مشتہر کروائی گئی جس کے نتیجے میں اسے اپنے بھائیوں نے گاؤں بُلا کر قتل کر دیا۔
قمر نسیم نے بتایا کہ جب خواجہ سراء تھانے میں مقدمہ درج کرانے جاتے ہیں تو اکثر پولیس اہلکار اُنہیں یہی تجویز دیتے ہیں کہ ‘آپ ناچ گانے کا کام چھوڑ دیں پھر آپ محفوظ رہیں گے، آئے روز تشدد اور جبر کے واقعات کی وجہ سے کئی خواجہ سرا اپنے بالاخانوں پر فاقوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں لیکن حکومت بھی اُن کا نہیں پوچھتی، صوبائی حکومت سال 2016-17 سے اب تک ہر سال بجٹ میں اُن کی فلاح و بہبود کے لئے 20 کروڑ روپے فنڈر مختص کرتی ہے مگر آج تک کسی بھی خواجہ سراء کی فلاح پر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں ہوا۔”
گزشتہ تین سالوں کے دوران پورے ملک کی نسبت خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے خلاف جرائم کے زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ خواجہ سراوں کی حقوق پر کام کرنے والی تنظیم فورم فار ڈیگنٹی انشی ایٹیو (ایف ڈی آئی) نے اپریل میں اپنی جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ پاکستان میں پچھلے تین سالوں میں مجموعی طور پر 120 خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا جن میں سے 65 خواجہ سراؤں کا تعلق خیبر پختونخوا سے جبکہ قتل ہونے والے 55 خواجہ سراؤں کا تعلق ملک کے دیگر صوبوں سے ہے۔
ایف ڈی آئی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عظمٰی یعقوب کے مطابق اُن کا حالیہ سروے گزشتہ تین سالوں کے اخبارات سے لی گئی رپورٹس پر مبنی ہے جس میں خواجہ سراؤں کے ساتھ معاشرتی رویوں، جنسی زیادتیوں، دھمکیوں اور تشدد کا جائزہ لیا گیا ہے۔
"یہ بڑی بدنصیبی کی بات ہے کہ جب کوئی خواجہ سرا کسی سے بھیک مانگتا ہے تو ہم اُس کی امداد کرتے ہیں لیکن جب کوئی خواجہ سراء مردوں یا خواتین کی طرح اپنی تعلیم، صحت، آزاد زندگی گزارنا چاہے یا دیگر حقوق مانگے تو اُس کو مختلف طریقوں سے زدوکوب کیا جاتا ہے۔”
ان کے مطابق خواجہ سراؤں کیلئے بنائے گئے قانون پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے بیشتر ملزمان عدالت میں مجرم ثابت نہیں ہوتے۔ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والے ایکٹویسٹ کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ پولیس کی ناقص تفتیش اور اس کی بنیاد پر عدالتوں کی جانب سے ملزمان کا بری ہونا ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق اور تحفظ کا قانون ٹرانسجنڈر رائٹ پروٹیکشن ایکٹ 2018 کیا ہے؟
یہ قانون سال 2018 میں پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور ہوا جس کے مطابق خواجہ سراؤں کو دیگر شہریوں کی طرح برابر شہری تصور کیا جائے گا۔
قانون میں خواجہ سراؤں کو ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ کی فراہمی کے ساتھ قومی شناختی کارڈ میں اپنی جنس کی تبدیلی کا حق دیا گیا ہے۔ خواجہ سراؤں کو ہراساں کرنا اور تعلیم سے محروم رکھنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ قانون میں حکومت کو پابند بنایا گیا ہے کہ جیلوں اور ہسپتالوں میں خواجہ سراؤں کیلئے الگ کمرے مختص کئے جائیں گے جبکہ خواجہ سراؤں کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے والے افراد کو 6 سال قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا۔