کلائمیٹ چینج: خیبر پختونخوا ماحولیاتی بحران کی روک تھام کے لئے کتنا اہم صوبہ ہے؟

کیف آفریدی
خیبر پختونخوا کے جنگلات پورے ملک کے 50 فیصد کاربن کو جذب کر رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں جنگلات کا رقبہ کل رقبے کا 37 فیصد ہے، جو 37 ہزار مربع کلومیٹر پر بنتا ہے۔
چھ اور سات فروری کو اسلام آباد میں ڈان میڈیا گروپ کی جانب سے انٹرنیشنل کلائمیٹ چینج کانفرنس "بریتھ پاکستان” سے خطاب میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ قدرتی وسائل سے مالامال خیبر پختوںخوا کلائمیٹ چینج کے روک تھام کے لئے ایک اہم صوبہ ہے۔ وزیر اعلی نے صوبے میں جنگلات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں 37 فیصد جنگلات کی حفاظت کے لئے سالانہ 322 ارب روپے درکار ہوتے ہیں اور کلائمیٹ چینج کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے ہمارے قائد عمران خان نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر موثر آواز اٹھائی ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گنڈا پور نے کہا کہ خیبر پختونخوا نے جنگلات کے فروغ کے لئے 2017 سے اب تک 675 ارب روپے خرچ کئے ہیں۔ ہم یہ خطیر رقم ملک کی خاطر جنگلات کے تحفظ اور فروع پر لگا رہے ہیں، خیبرپختونخوا نے اپنی جنگلات کا رقبہ کل رقبے کے 26 فیصد تک بڑھایا ہے جو بین الاقوامی معیار سے بھی زیادہ ہے، صوبے کے جنگلاتی رقبے میں معدنیات اور زراعت کی بے پناہ استعداد موجود ہے۔
وزیر اعلی نے کہا کہ اگر اسے تجارتی بنیادوں پر استعمال کیا جائے تو صوبے کو 215 ارب روپے سالانہ کی آمدن ہو سکتی ہے لیکن خیبرپختونخوا ملک کی خاطر ان خطیر وسائل کی قربانی دے رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے کاربن کریڈٹ کی مالیت تقریبا 100 ارب روپے سالانہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سال خیبر پختونخوا میں 661 سرکاری سکولوں، 183 کالجوں اور 628 مساجد کو سولر انرجی پر منتقل کیا گیا ہے۔
انہوں نے عندیہ دیا کہ عنقریب ہماری حکومت تمام تعلیمی اداروں، طبی مراکز اور دیگر سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے جس سے کاربن کے اخراج کم ہونے میں مدد ملے گی۔ گنڈا پور نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا نے خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لئے زیتون کے ایک لاکھ 70 ہزار جنگلی پودوں کی گرافٹنگ کی ہے، آنے والے سالوں میں جنگلی زیتون کے 10 لاکھ پودوں کی گرافٹنگ کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں ٹین بلین ٹری سونامی، موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کیسے کرے گا؟
پشاور یونیورسٹی کے انوارمنٹل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد نفیس کا کہنا تھا کہ درخت اور سبزہ سورج کی روشنی کو جذب کرکے اس کو تمام جاندار اشیاء کے لئے خوراک میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فضا سے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرکے اس کو آکسیجن میں تبدیل کرتے ہیں۔ جب خوراک اور آکسیجن، دونوں نہ ہو تو زندگی ممکن ہی نہیں ہے۔
اس کے علاوہ لکڑی، ادویات، کاغذ، فرنیچر، گھر کا سازو سامان سب درختوں سے آتا ہے۔ ایکالوجی کے اصطلاح میں بات کریں تو کتنے جانداروں اس کو مسکن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ درجہ حرارت میں توازن لاتا ہے، پانی سٹور کرتا ہے اور زمین کو کٹاؤ سے محفوظ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر نفیس نے کہا کہ ٹین بلین ٹری منصوبہ ایک اچھا منصوبہ ہے لیکن اس طرح لاگوں نہیں کیا گیا جس طرح پلان کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر جو لوگ پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتے ہیں انکو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جہاز سے تخم گرانے کی ایک کوشش کی گئی کہ یہ خشک پہاڑوں میں درخت اگ جائنگے۔ اسی طرح پرائیوٹ نرسریوں سے مہنگے پودے خریدے گئے وہ پلانٹس پریکٹیکل نہیں تھے۔ فنڈز، مین ورکنگ وغیرہ صیح طریقے سے نہ ہو سکے جو توقع کی جا رہی تھی۔
تاہم پھر بھی لوگوں میں آگاہی اور شعور پیدا ہوا اور عام لوگوں نے درخت لگانے میں دلچسپی لینی شروع کر دی ہے۔ اس سے موسمیاتی تغیر کی روک تھام میں مدد ملے گی۔
حیاتیاتی تنوع میں درختوں کا کیا کردار ہے؟
ڈاکٹر نفیس کا کہنا تھا کہ حیاتیاتی تنوع جس کو ہم بائیو ڈائورسٹی کہتے ہیں، بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ درخت اور سبزہ حیاتی تنوع کو بنیاد فراہم کرتا ہے۔ کیوںکہ سب سے پہلے جانداروں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر رہنے کے لئے جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو سخت موسم اور دشمن سے بچاؤ ضروری ہے۔ جس کے لئے درختوں کا ہونا انتہائی اہم ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر نفیس نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی ایکو سسٹم میں جانداروں کی کمپوزیشن میں بے ترتیبی لاتی ہے۔ جس سے حیاتیاتی اور کیمیائی پیچیدگی پیدا ہوتی ہیں۔ 2021 میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے، کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں زمین کی سطح سے 50 فیصد پودے اور جانوروں کی انواع ختم ہو سکتے ہیں۔
عالمی سطح پر، 1800 میں 1.8 فیصد جانداروں کا خاتمہ ہوا ہے، 1900 میں 4.9 فیصد، اور 2000 میں 13.6 فیصد۔ تقریباً 17 فیصد انواع کے 2100 تک معدوم ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ کسی خاص ماحولیاتی نظام کے قدرتی کام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں ان پر توجہ دینا ہوگی۔ مسائل کو صحیح طریقے سے حل کی طرف لے جانا ہوں گے۔
کیا درخت ہمیں موسمیاتی تغیر کے اثرات سے بچا سکتے ہیں؟
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق درخت فضاء سے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ چونکہ موسمیاتی تبدیلی میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا بڑا کردار ہے اور درخت فضاء سے کاربن ڈائی آکسائڈ ہٹانے میں معاونت کرتے ہیں۔
فضا سے پچیس فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ سمندروں میں جذب ہوتا ہے اور تیس فیصد درخت جذب کرتے ہیں جبکہ باقی پینتالیس فیصد رہ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس لئے بڑے پیمانے پر درخت موسمیاتی تبدیلی میں مدد تو کرتے ہیں لیکن صرف اس سے موسمیاتی تبدیلی کو مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ باقی ماندہ پینتالیس فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ کو ہٹانے کے لئے جتنے درختوں کی ضرورت ہوگی اتنی جگہ ہمارے پاس ہے نہیں۔
اگر ہم بھر پور طریقے سے شجرکاری کریں تو بمشکل تیس فیصد کو پینتیس فیصد پر پہنچایا سکیں گے۔ تیس سے پچہتر فیصد پر پہنچنا مشکل نہیں، ناممکن ہے۔ لہذا ہمیں کاربن ڈائی آکسائڈ کو فضاء سے ہٹانے کے لئے دوسرے ذرائع بھی ڈھونڈنا ہوں گے۔
پشاور میں مقیم اینوارمنٹل صحافی منظور احمد نے ٹی این این کو بتایا کہ خیبرپختونخوا کے ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں جتنی ہریالی موجود ہیں وہ پاکستان میں کہی بھی نہیں ہے، تو اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ خیبر پختونخوا کے جنگلات پورے ملک کے 50 فیصد کاربن کو جذب کر رہے ہیں۔ احمد نے کہا کہ نئے درخت لگانا اور قدیم درختوں کی کٹائی کو روکنا دونوں بہت ضروری ہے۔
اگر کوئی درخت تب تک خشک نہ ہو یا کوئی انسانی زندگی کو خطرہ نہ ہو تو انکا کاٹنا انتہائی غلط ہے۔ اسے اگر دیکھا جائے تو پشاور شہر میں انگریزوں کے زمانے کے درخت ابھی بھی ہیں۔ جس سے نہ صرف انسان بلکہ حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی بہت مفید ہوتا ہے۔ تاریخی شہر پشاور جو کبھی وادی پشاور کے نام سے جانا جاتا تھا، جس کے باغات، ہریالی اور پھولوں کے شہر کی داستانیں مشہور تھی اب کنکریٹ کا شہر بنتا جا رہا ہے۔
منظور نے کہا کہ بلین ٹری سونامی یا ایک ارب درختوں کی شجرکاری کا آغاز خیبر پختونخوا حکومت نے سنہ 2014 میں کیا تھا۔ یہ ایک ارب درخت محکمہ جنگلات اور بنجر زمینوں کے 35,000 ہیکٹرز پر لگائے گئے۔ خیبر پختونخواہ سے شروع ہونے والے اس منصوبے کی بازگشت تھوڑے ہی عرصے میں نہ صرف ملک بھر میں سنائی دینے لگی بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ منصوبہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر چیلینج، عالمی بینک اور آئی یو سی این جیسے ماحولیاتی اداروں کے ایجنڈے کا اہم حصہ قرار دیا جانے لگا۔
وزیر اعلی علی امین گنڈاپور اپنے دعووں میں کتنا کامیاب ہو نگے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن بیشتر ماحولیاتی ماہرین کا ماننا ہے کہ صرف درخت لگانے سے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، ماحولیاتی تبدیلی ایک ایسا بحران ہے جس سے نمٹنے کے لئے سسٹم میں موجود ترقی کے طرز فکر میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ انسانی ترقی یا بہتر زندگی کے لئے قدرتی وسائل پر انحصار کے لئے رویوں میں تبدیلی ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے ناگزیر ہے۔