خیبر پختونخواعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویوماحولیات

 کلائمیٹ چینج  اور ہاوسنگ سوسائٹیز کے سائے میں وادی پشاور سے غائب ہوتی ہوئی ہریالی

کیف آفریدی

پشاور سمیت خیبر پختونخو کی زرعی زمینوں میں کمی، ہاوسنگ سوسائٹیز میں اضافے اور کلائمیٹ چینج کی بدولت فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ کلائمیٹ چینج اور ریئل اسٹیٹ کے درمیان پھنسے ہوئے چھوٹے اور بڑے  کاشتکاروں کی زراعت سے بیزار ی نے صوبے میں لینڈ گورننس پر گہرے سوالات کھڑے کیے ہیں۔

خیبر پختونخوا کا تاریخی شہر پشاور جو کبھی وادی پشاور کے نام سے جانا جاتا تھا، جس کے باغات، ہریالی اور پھولوں کے شہر کی داستانیں مشہور تھی اب کنکریٹ کا شہر بنتا جا رہا ہے۔

پشاور رنگ روڈ کے دونوں طرف پھیلی ہوئی دیر کالونی میں بھی کھبی باغات ہوا کرتے تھے، ہرے بھرے کھیت تھے، لیکن آج ہر جگہ ہاوسنگ سوسائٹیز  نظر آتی ہیں۔ پشاور دیرکالونی کے رہائشی 62 سالہ کریم خان نے ٹی این این کو اپنے علاقے کی ہریالی کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ یہاں پہلے آلوچوں اور لوکاٹ کے باغات اور  سرسبز کھیت ہوا کرتے تھے جس میں کاشتکار  ٹماٹر، پھول گوبھی اور دوسری سبزیاں کاشت کرتے تھے لیکن اب وہ ہریالی  مکمل طور پر آبادی میں تبدیل ہو چکی ہیں۔

کریم نے کہا کہ یہ 30 سال پہلے کی بات ہے، اس وقت ابادی بھی کم تھی،  وہ خود بھی 4 ایکڑ زرعی زمین کا مالک تھا جس پر ایک الوچوں کا باغ تھا، جو اس نے پارپرٹی ڈیلرز کو بیچ دیا، کریم نے اپنی زمین اچھے داموں فروخت کی، ان کے مطابق کاشکاری سے ان کے بچوں کی اچھی تعلیم ممکن نہیں تھی۔ کریم نے بے دلی سے کہا کہ باغات کی وجہ سے ہمیں گرمی بھی کم پڑتی تھی، اب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ باغات او کھیت ختم ہونے سے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

کریم نے کہا کہ ٹاون بننے سے پورا ماحول  تبدیل ہو چکا ہے، پہلے ہم  کھیتوں کو صاف پانی دیا کرتے تھے، لیکن اب پانی آلودہ ہوچکا ہے ۔ساتھ میں ٹاون شپ بھی ہوتے رہے اور آہستہ آہستہ یہ باغات ختم ہو گئے۔ کریم نے کہا کہ مجھ سمیت 3 سے چار ایکڑ زمینوں کے مالکان نے زمینیں تو بیچ دی لیکن اب وہ چھوٹے ٹاون شپ میں تبدیل ہوچکی ہے۔

پشاور میں ہاوسنگ سکیمز نے زرعی زمینوں کو ہڑپ لیا

خیبر پختونخوا  لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے 2022  ڈیٹا کے مطابق  صوبے میں 442 نجی ہاؤسنگ اسکیمز  میں سے 297 غیر قانونی ثابت ہوئیں۔ جبکہ  87  تاحال اپرول کے انتظار میں ہے۔ اسی طرح صرف 58 کو حکومتی منظوری حاصل ہوئی تھی۔ لوکل گورنمنٹ کے اہلکار کے مطابق   442 نجی ہاؤسنگ اسکیمز نے مجموعی طور پر 69366 کنال (3509 ہیکٹیئر) زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا محکمہ زراعت نے ایک سروے کی رپورٹ شائع کی جس میں پچھلے 9 سالوں میں  2014 سے 2023 تک 302894 ہیکٹر زرعی زمین کاشت کے قابل نہی رہی۔ محکمے نے زرعی زمینوں  میں کمی  70 فیصد بڑی  وجہ ہاوسنگ سوسائٹیز بتائی جبکہ 30 فیصد کلائمیٹ چینج سے بنجر ہوئی۔

دوسرے اضلاع کی نسبت  پشاور میں ہاؤسنگ سکیمز تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے میڈیا کے ساتھ شریک کی گئی معلومات کے مطابق  پشاور صوبائی دارالحکومت میں 198 نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں۔ جن میں سے 162 غیر قانونی ہیں جبکہ 18 منظور شدہ ہیں اور دوسرے 18 غیر منظور شدہ ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں 74 غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز ہیں۔ چارسدہ اور نوشہرہ میں 8، 8 مردان میں 19  اور ہری پور میں تین ہیں۔

خیبرپختونخوا میں ٹوٹل 442 ہاؤسنگ سوسائٹی سکیمز ہیں۔ جس میں غیرقانونی 297 ہیں۔ اسی طرح پشاور میں غیرقانونی ہاؤسنگ سوسائٹی سکیمز کی تعداد 162 ہے ڈٰیرہ اسماعیل خان میں 74، چارسدہ اور مردان میں 8،8 جبکہ نوشہرہ میں 19 ہیں۔

کلائمیٹ چینج اور ریل اسٹیٹ کے درمیان پھنسے کاشتکار

پشاور کے علاقے باغبانان سے تعلق رکھنے والے محراب خان کا کہنا ہے کہ انکے اپنے علاقے میں ڈھائی  ایکڑ زمین ہے اور ہر سال دسمبر کے مہینے میں وہ اس پرگندم کاشت کرتے ہیں۔ انہیں ہر سال 45 سے 50 من گندم حاصل ہوتی تھی لیکن پچھلے کئی سالوں سے کم بارشوں یا وقت پر بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے گندم کم ہوتی جارہی ہے۔ اس دفعہ دسمبر کے مہینے میں بارشیں نہ ہونے سے انکی فصلیں متاثر ہوئی۔ محراب نے ٹی این این کو تفصیل سے بتایا کہ دوسرے کاشتکار بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ کہ ان کی تیار فصل بے وقت بارشوں کی نظر ہوجاتی ہے۔

یاد رہے! رواں سال مارچ اور اپریل میں طوفانی بارشوں سے صوبے کی 44 ہزار ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں بارشوں کی نظر ہوچکی ہے۔ محکمہ زراعت کے مطابق پشاور  35 ہزار ایکڑ پر کھڑی گندم اپریل اور مارچ کے مہینے میں بارشوں کی وجہ سے تباہ ہوئی تھی جس میں سب سے زیادہ پشاور میں 18000 ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی تھی۔ خیبر پختونخوا میٹروجیکل ڈیپارٹمنٹ کی میڈیا کو دی گئی معلومات کے مطابق سال 2024 میں ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں۔ کلائمیٹ چینج کی وجہ سے بارشوں کے اوقات میں تبدیلی کی وجہ سے شدید موسمی واقعیات جسے طوفانی بارشوں، آندھیوں اور ہیٹ ویوز میں اضافہ ہوا ہے۔ محراب کاکا نے بتایا کہ  وہ اس سال اس کی گندم کی پیداور نہ ہونے کی برابر ہے، دوسری جانب کاشتکاری پر خرچے بڑھنے کی صورت میں کاشتکار مشکلات سے دوچار ہیں۔

باغبانان گاؤں میں جن کسانوں کے پاس جنریٹرز تھے انہوں نے ٹیوب ویلوں کے ذریعے اپنی فصلوں کو سیراب کیا یا جنہوں نے سولر پینل لگائے ہیں وہ بھی فائدے میں رہے کیونکہ اس علاقے میں بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ علاقہ بارانی ہے اور وقت پر بارشیں نہ ہونے یا بے وقت زیادہ بارشوں کی وجہ سے فصلیں مکمل طور تباہ ہو گئیں۔ کھاد اور زرعی ادویاتکی قیمتں بھی اس مہنگائی کے دور میں ایک بڑا مسلہ ہے۔

محراب نے کہا کہ کاشتکاری اب منافع بخش روزگار نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ بیشتر چھوٹے زمیندار اپنی زمینیں پراپرٹی ڈیلرز کو بیچ رہے ہیں۔

پشاور کی دیر کالونی کے کریم خان کا کہنا ہے کہ باغات ختم ہونے سے دیر کالونی میں ہر جگہ عمارتیں اور مارکیٹیں نظر آرہی ہے جس سے لوگ خوش ہے کہ آبادی ہو گئی لیکن جب گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ باغات اور کھیت صیح تھے یا یہ عمارتیں؟ بحرحال اب یہ صرف پشاور نہیں بلکہ چارسدہ، مردان، نوشہرہ اور دوسرے شہر میں بھی اسی طرح کے تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ زرعی زمینوں کی قلت سے ملک میں اجناس کی کمی اور بے روز گاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق زراعت پاکستان میں ایک اہم صنعت ہے اور اس کی معیشت کا بنیادی محرک ہے۔ محکمہ زراعت کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں کلائمیٹ چینج کی وجہ سے زراعت کو شدید نقصان ہوا ہے۔ بارانی علاقوں سمیت سیرابی علاقے بھی شدید گرمی اور شدید موسمی واقعیات میں اضافے کی بدولت زراعت کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ محکمے نے کہا کہ ہمیں متبادل زراعت کی طرف جانا ہوگا اور اس سلسلے میں محکمہ نئے تخم اور نئے کاشتکاری طریقوں پر کام کر رہی ہے۔

زرعی زمین ہاوسنگ سوسائیٹز اور کلائمیٹ چینج کے سائے میں

مارچ 2024 میں محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کی جانب سے کی گئی ایک سٹڈی کے  اعدا د شمار جاری ہوئے ہیں۔  صوبے کے 15 اضلاع 7 قبائلی اور آٹھ بندوبستی آضلاع میں 2013 سے 2023 تک  مجموعی طور 302894 ہیکٹیرز زرعی زمین کم ہوئی یا کاشت کے قابل نہیں رہی۔  رپورٹ میں زرعی زمین کی کمی کی وجوہات  اربانائیزیشن اور کلائمیٹ چینج  ہے۔ ٹی این این نے زراعت کے صوبائی منسٹر کو اس حوالے سے رابطہ کیا اور سوالات بجھوائے لیکن ابھی تک جواب موصول نہیں ہوا۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت نے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مشیر خزانہ خیبرپختونخوا مزمل اسلم کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں این او سی کے بغیر کام کرنے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز کو بند اور جرمانے  کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اجلاس میں مشیر خزانہ مزمل اسلم نے کہا کہ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی زرعی زمین کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے مزمل اسلم نے مزید کہا کہ غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز سے فوڈ سیکورٹی اور ماحولیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں اور یہ مستقبل میں اور بھی بڑھ  جائے گا۔ انہوں نے نے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کیلئے جامع پالیسی مرتب کرنے کی منظوری دینے کے لیے ہدایت جاری کر دی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا کہ این او سی اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔

پاکستان ایک زرعی ملک مانا جاتا ہے اور 70 فیصد معیشت زراعت پر منحصر ہے، لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور کلائمیٹ چینج ملک کے زراعت کے لئے ایک بہت بڑا خطرا سامنے آرہا ہے۔ کلائمیٹ چینج اور ماحولیات پر کام کرنے والے صحافی آصف مہمند نے ٹی این این کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کلائمیٹ چینج اور  ہاوسنگ سوساٹییز زراعت کے لئے ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے جس نے صوبے کے فوڈ سیکورٹی پر سوالات کھڑے کر دیے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف کلائمیٹ چینج اور دوسری طرف ہماری زمین کا ناقص استعمال پر حکومت خاموش ہے۔ اس سلسلے میں عملی اقدامات نہیں اٹھائے تو یہ بات واضح ہے کہ آئیندہ چند سالوں میں فوڈ سیکورٹی ایک ایسا خطرہ ہوگا شائد ہی پھر اس کا حل ہمارے پاس ہو۔

ایک سوال کے جواب میں صحافی آصف مہمند نے بتایا کہ کلائمیٹ چینج اور ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے حوالے سے قوانین اور پالیساں موجود تو ہیں لیکن وہ صرف کاغذوں کی حد تک ہے، اگر حکومت اس معاملے میں عملی اقدمات اٹھاتی تو پچھلے 9 سالوں میں 3 لاکھ ہیکٹیرز زرعی زمین کیوں غائب ہوتی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ  صوبے میں غیر قانونی ہاوسنگ سوسائیٹیز کی بھر مار ہے جس کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی، انہوں نھے مزید کہا ہے کہ کلائمیٹ چینج کی حقیقت کو اب تسلیم کرنا چاہئے اور صوبے کے زراعت کو بچانے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2023 دنیا کا اب تک ریکارڈ ہونے والا گرم ترین سال ہے لیکن ماحولیاتی ماہرین پینشنگوئی کر رہے ہیں کہ 2024 شائد اس سے گرم سال ہو جس کے براہ راست اثرات ہماری زرعی معشت پر ہو رہے ہیں.

 

Show More

Kaif Afridi

Kaif Afridi is working as a journalist from past 9 years in Peshawar. He belongs to District Khyber. He has vast experience in multimedia work including Digital reporting, News Anchoring and currently working as a Video Editor in Tribal News Network TNN
Back to top button