بلین ٹری سونامی: خیبرپختونخوا میں محکمہ تعلیم مہم کاحصہ
خالدہ نیاز
خیبرپختونخوا حکومت نے بلین ٹری سونامی منصوبے میں محکمہ تعلیم کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت محکمہ 3 سال کے دوران طلباء کے تعاون سے 4 کروڑ پودے لگائے گا۔ دوسری جانب ماہرین کہتے ہیں کہ پودوں کی تعداد بڑھانے کی بجائے طلباء کو پودوں اور درختوں کی تربیت دینا ضروری ہے۔
اس حوالے سے چند روز قبل محکمہ جنگلات اور محکمہ تعلیم نے ایک ایم او یو سائن کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس مخصوص شجرکاری مہم کا آغاز 20 فروری 2020 سے ہوگا اور جون 2023 تک جاری رہے گا۔
اس حوالے سے محکمہ تعلیم کے ترجمان کرامت نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کے ساتھ کئے گئے معاہدے تحت سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والا ہر طالبعلم دس پودے نہ صرف لگائے گا بلکہ اس کی حفاظت بھی کرے گا۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ طلباء کو یہ پودے محکمہ جنگلات مہیا کریں گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک صحتمندانہ سرگرمی ہے جس سے طلبا کا وقت ضائع نہیں ہوگا بلکہ ان کو ایک صحتمندانہ سرگرمی میں حصہ لینے کا موقع گا جبکہ کچھ طلبا کا شوق بھی ہوتا ہے کہ وہ شجرکاری کریں۔ انہوں نے کہا پودا لگانے میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔ کرامت نے مزید بتایا کہ پودوں کے لگانے کو یقینی بنانے کے لیے ہر ادارے کا متعلقہ استاد اس حوالے سے طلبا کی رہنمائی کرے گا۔
محکمہ جنگلات کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یہ ایم او یو بلین ٹری سونامی منصوبے کا ایک حصہ ہے جس میں پورے صوبے کے طلبا کو شامل کیا جائے گا۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران عہدیدار نے بتایا کہ طلباء یہ پودے اپنے تعلیمی اداروں اور ایسی جگہوں پرلگانے کے پابند ہونگے جہاں وہ انکی دیکھ بھال بھی کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ طلبا یہ پودے گھر میں نہیں لگاسکتے، اس کے لیے الگ منصوبہ شروع ہے جس میں عام لوگ پودے گھروں اور کھیتوں میں لگاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا طلباء کو جوپودے دیئے جائیں گے اس میں سفیدہ، شیشم، بکائن، لاچی، پُلائی اور توت کے درخت شامل ہیں اس کے علاوہ فروٹ پلانٹ میں امرود اور لوکاٹ وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم کو اس منصوبے میں شامل کرنے کا مقصد شجرکاری اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے طلباء میں شعور اجاگر کرنا ہے کہ وہ بھی پودے لگائیں اور ان کی دیکھ بھال میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طلباء کے لیے ایک سوشل ورک سا ہے جس میں وہ رضاکارانہ طور پر پودے لگاسکتے ہیں جو کہ ایک صحتمندانہ اور ماحول دوست سرگرمی ہے۔
دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کے ماہر اور زرعی یونیورسٹی پشاور کے شعبہ ایگرانومی سے منسلک ڈاکٹر پروفیسر اکمل نے ٹی این این کو بتایا کہ صرف پودوں کی تعداد بڑھانے سے بہتر ہے کہ پہلے ان طلباء کو باقاعدہ تربیت دی جائے کہ وہ پودوں کی دیکھ بھال کیسے کریں، ان کو بتایا جائے کہ کونسے پودے اور درخت کس جگہ کے لیے بہترہے اس حوالے سے ان کو تربیت دی جائے اوراس کے بعد یہ مہم شروع کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر موٹروے پر کھجور کے درخت لگائے جائیں تو اس کا کیا فائدہ کیونکہ کھجور لگانے سے درخت تو زیادہ ہوجائیں گے لیکن کیا یہ وہاں اگ پائیں گے بھی یا نہیں اس حوالے سے بھی شعور کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا’ اگر محکمہ جنگلات کے اہلکار پودے لگانے سے پہلے طلباء کو آگاہی دے کہ کونسے پودے کس علاقے کے لیے بہتر ہے کہاں بہتر نشوونما پا سکتے ہیں؟ کیسے ان کو لگانا ہے اور پھرکیسے ان کا خیال رکھنا ہے تو اس کے نتائج اچھے آئیں گے بہ نسبت اس کے کہ صرف پودوں کی تعداد بڑھائی جائے’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان میں کوئی لاچی کے درخت لگانا چاہتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ اس سے ماحول کو فائدے کے بجائے نقصان ہوگا کیونکہ یہ درخت پانی بہت زیادہ جذب کرتے ہیں اور زمین کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ویسے بھی ہمارے ملک کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
پروفیسر اکمل نے بتایا اس کے علاوہ باقی پودوں کو بھی ایسے علاقوں میں لگانا چاہیے جو ان کے کے لیے موزوں ہوں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر طلباء کو صحیح تربیت دی جائے اور علاقے کی مناسبت سے صحیح پودوں کا انتخاب کیا جائے اور پھر ان پودوں کی صحیح دیکھ بھال بھی کی جائے تو اس سے ماحول کو بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے۔