شمالی وزیرستان میں زمینی تنازعات کیوں ابھر رہے ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟
سٹیزن جرنلسٹ سکین اللہ
مئی 2018 میں حکومت پاکستان نے ایک تاریخی آئینی ترمیم منظور کی جس کے ذریعے سے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کی نیم خودمختار حیثیت کا خاتمہ ہو گیا، یہاں کا نظم چلانے والے نوآبادیاتی دور کے قوانین منسوخ ہو گئے اور ملکی علاقائی حدود میں اس کا انضمام ہو گیا۔
اس انضمام کی بڑے پیمانے پر تشہیر غربت زدہ قبائلی علاقے میں تعمیر و ترقی متعارف کروانے اور عسکریت پسندی اور تنازعے سے بھرپور تاریخ کو امن و استحکام بخشنے کے طور پر کی گئی تھی۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد شمالی وزیرستان میں لوگوں نے ایک نئی زندگی شروع کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا کیونکہ مشکل حالات کی وجہ سے یہ لوگ گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں کو چلے گئے اس امید پر کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کی صورت یہ لوگ مشکل زندگی سے نجات حاصل کر لیں گے لیکن آپریشن ضرب عضب کے بعد ان لوگوں میں مزید مایوسی اس وقت بڑھ گئی جب یہ لوگ اپنے علاقوں کو واپس چلے گئے تو ان کے گھر بار حجرے، مساجد، دکانیں اور مارکیٹ سب زمین بوس ہو گئے تھے اور صرف دو تین ماہ بعد اچانک طالبان کا نمودار ہونا اور کھلے عام بازاروں میں ٹارگٹ کلنگ شروع ہونا ان لوگوں کی مایوسی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
مسائل ہیں کہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہے اور یہی وجہ ہے کہ شمالی وزیرستان کے لوگ حکومتی نمائندوں کے جھوٹے وعدوں سے تنگ آ گئے ہیں، ہر روز کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کبھی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے کبھی زمینی تنازعات کی وجہ سے تو کبھی آپریشن کے بعد مسمار شدہ گھروں کے چیک کے نام پر اور کہیں دوسرے مسائل کی وجہ سے ہر روز شمالی وزیرستان کی سڑکیں احتجاج کے طور پر بند کر دی جاتی ہیں کیونکہ ان لوگوں کے پاس اپنے مسائل کے حل کیلئے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
آج کل اچانک ابھرنے والے زمینی تنازعات نے بھی شمالی وزیرستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور عدالتوں اور جرگہ سسٹم کے باعث بھی حل ہونے کا کوئی نام نہیں لے رہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی گفتگو میں سینئر صحافی رسول داوڑ کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کے لئے کوئی تیاری نہیں کی ہے، وہاں پر پٹوار کا نظام بہت کمزور ہے، پٹوار کا نظام کمپیوٹرائز نہ ہونے کہ وجہ سے زمینی تنازعات حل نہیں ہو رہے، ”ان تنازعات کا واحد حل پٹوار سسٹم ہے کہ ان زمینوں کا ریکارڈ پٹوار میں موجود ہے اسی ریکارڈ کی بنیاد پر زمینوں کو تقسیم کیا جائے۔
چند دن پہلے کئی اقوام، ایپی اور مدی حیل، عیدک اور بورہ حیل، خدی اور مچی خیل اور دوسری طرف زیرکی قوم کے اپنی چار شاخیں آپس میں پہاڑوں میں مورچہ زن ہیں۔
صخافی اخسان داوڑ نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ایک ہی وقت میں ان تنازعات نے پولیس کی موجودگی میں جنم لیا ہے اور پولیس ان کو کنٹرول بھی نہیں کر سکتی، "آپریشن ضرب عضب کے بعد کسی کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا پھر کس طرح ان اقوام کے درمیان بڑے پیمانے پر اسلحے کا استعمال کیا جاتا ہے اور پولیس و لیویز فورسز خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔”
شمالی وزیرستان کے عوام نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ان تنازعات کے حل کے لئے اپنا کرداد ادا کرے۔