”ٹینگہ” وزیرستان کی ایک اچھی روایت جسکا استعمال کبھی کبھار غیراسلامی طور پر کیا جاتا ہے!
سی جے رضیہ محسود
پاکستان کے قبائلی علاقے، علاقہ غیر اور آزاد قبائل کے ناموں سے چھٹکارا پانے کے بعد ترقی کرنے والے علاقوں کی صف میں شامل ہو گئے اور باضابطہ طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن گئے جس کے ساتھ ہی ان علاقوں میں انگریز کا نافذ کردہ قانون ایف سی آر ختم ہو گیا ہاں البتہ جو ختم نہ ہو سکا وہ کچھ ایسی فرسودہ رسوم و رواج ہیں جو آج بھی خواتین خصوصاً لڑکیوں کی خوشیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، ان میں سے ایک ٹینگہ کی روایت اب بھی وزیرستان کے علاقوں میں رائج ہے جو ایک اچھی روایت ہے مگر کھبی کبھار اس کا استعمال غیر اسلامی طور پر کیا جاتا ہے جس کو حسب ضرورت رواج کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ سات قبائلی اضلاع جو کچھ عرصہ پہلے تک ہی فاٹا کہلاتے تھے اور یہاں کے تمام اختیارات اس نظام کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ نام کا ایک سرکاری افسر چلاتا تھا، وہی حکومت بھی ہوتا تھا وہی انتظامیہ اور وہی عدالت بھی تھا۔ جب بھی کوئی فرد جرم کرتا تو ایف سی آر کی متعلقہ شق کے تحت اس کے قبیلے پر اجتماعی ذمے داری کا قانون نافذ ہو جاتا تھا، ایسی بہت سی باتیں ہوتی تھیں، اس نظام میں سزاوں کا ایک ایسا سلسلہ ہوتا تھا جو دنیا میں شاید ہی کہیں پایا جاتا تھا پھر آہستہ آہستہ کچھ قبائلی عوام اور ان کے نمائندوں کی مشاورت سے ان علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح بندوبستی علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا اور اب ان اضلاع میں وہی قانون اور نظام رائج ہے جو صوبہ خیبر پختونخوا کے کسی بھی علاقے میں ہے۔
اب ان علاقوں میں عدالتیں قائم ہو گئی ہیں، پولیس یہاں آ چکی ہے، زندگی کا سارا نظام کچھ حد تک انہی اداروں کے تحت چل رہا ہے جو باقی پورے پاکستان میں ہے لیکن ایک چیز ایسی ہے جس پر قبائلی عوام نے سمجھوتہ نہیں کیا اور وہ جوں کا توں وہی والا ہے جو ایف سی آر کے دور میں تھا اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ حکومت نے بھی اس پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، اس رواج کو مقامی زبان میں ”ٹینگہ” کہتے ہیں جو پشتو کا لفظ ہے اور اس کا اردو ترجمہ کسی بات پر ڈٹ جانے یعنی اس پر سختی سے عمل کرنے کو کہتے ہیں اس لئے جب بھی ہم پشتو میں یہ کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں بڑے ”ٹینگ” ہیں تو اس کا مطلب دراصل یہ ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں یہاں تک کہ اس کے بارے میں کوئی بات بھی نہیں سننا چاہتے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ پہلے دور میں بھی اس قسم کی روایات سے زیادہ تر عورتیں متاثر ہوتی تھیں کیونکہ قبیلوں کے بڑے بزرگ و عمائدین ایسے ایسے فیصلے کر کے ان پر ٹینگہ کر لیتے تھے جس سے براہ راست عورتیں زیادہ متاثر ہوتی تھیں، اب بھی یہی قبائیلی عمائدین پوری آزادی کے ساتھ اپنے فیصلوں کے لئے ٹینگہ ہی کا سہارا لیتے ہیں اور جب کوئی ایسا فیصلہ کر لیں تو اس پر ٹینگہ کی مہر لگا لیتے ہیں کہ اگر کسی نے بھی قبیلے کے فیصلے سے بغاوت کی کوشش کی تو اسے بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی عورت کے حقوق کے معاملے پر ٹینگہ کے سامنے لوگ مجبور ہو جاتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کو فرض سمجھتے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ معاشرے کی نصف آبادی یعنی عورت کے بارے میں کوئی فیصلہ اور اس پر ٹینگہ کرتے وقت ان عورتوں سے ان کی رضامندی تک نہیں پوچھی جاتی۔
اکثر عمائدین علاقہ آپس میں جرگہ منعقد کر کے فیصلہ کر لیتے ہیں جس کو سب کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور جو تسلیم نہ کرے یا انکار کرے اس پر بھاری جرمانہ عائد کر دیا جاتا ہے، اس کو ٹینگہ کہا جاتا ہے، جو بھی فیصلہ کیا جاتا ہے اس کی پابندی ضروری ہے۔ یہاں پر عورتوں کے حقوق کی جب بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے رسم و رواج میں نہیں ہے حالانکہ اسلام نے عورتوں کے حقوق مقرر کیے ہیں مگر یہاں پر رسم ورواج کو اولین ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بعض معاملات میں عورتوں کے حقوق پاؤں تلے روند دئیے جاتے ہیں۔
لڑکیوں کی شادی کروانے کے بارے میں علاقے کے مشران ملک صاحبان گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کر کے جرگہ کرتے رہتے ہیں جس میں لڑکیوں کی شادی کے خرچے کی حد مقرر کر دی جاتی ہے جس کا نہ تو لڑکی کو معلوم ہوتا ہے اور نہ لڑکی کی والدہ کو کچھ خبر ہوتی ہے، بس مخصوص رقم مقرر کر دی جاتی ہے اور پورے گاؤں کے لوگوں کو خبردار کر دیا جاتا ہے کہ اگر اس مقرر کردہ رقم سے زیادہ ہوا تو بھاری جرمانہ مقرر کر دیا جائے گا جس کی وجہ سے پھر پورے علاقے میں وہی مقرر کردہ رقم یا مقامی زبان میں قیمت کے ذریعے ہی لڑکی بیاہی جاتی ہے۔
اس قیمت کو کہیں کہین حق مہر کا نام بھی دیا جاتا ہے چونکہ یہ قیمت یا لڑکے والے لڑکی کے والدین کو دیتے ہیں جس سے لڑکی کے جہیز کا سامان خریدا جاتا ہے، ٹینگہ کے ذریعے اس رقم کی ایک خاص حد مقرر ہوتی ہے اور کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس سے لڑکی کے لئے درکار ضروری سامان خریدا بھی جا سکتا ہے یا نہیں تاہم ایک بار فیصلہ ہونے کے بعد کسی میں جرات نہیں ہوتی کہ وہ اس رقم کو زیادہ کر سکے۔
لڑکی یا لڑکے کے والدین اس ٹینگہ کے پابند ہوتے ہیں۔ اہل علاقہ کو یہ معلوم ہے کہ اس رسم کا اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں لیکن یہ پھر بھی رائج ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں جنوبی وزیرستان تحصیل سراروغہ کے ملک پیر رحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ محسوس کیا کہ لڑکیوں کی شادی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اکثر لڑکیاں گھروں سے بھاگ جاتی ہیں اور تمام برائیوں کی جڑ یہی وجہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس طرح کے جرگوں کی شروعات تحصیل سراروغہ سے کی اور اب ہم آہستہ آہستہ مکین اور لدھا کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں اور وہاں پر بھی ہم نے اس حوالے سے جرگے کے ذریعے ٹینگہ کئے ہیں۔
تاہم ملک پیر رحمان لڑکیوں کو اسلام کی جانب سے حقِ وراثت کے معاملے پر اتنا ہی کہتے ہیں کہ یہ ہماری روایات میں شامل نہیں اس لئے یہاں کے لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔
جنوبی وزیرستان تحصیل سروکئی میں مقامی خواتین نے بتایا کہ ایسے جرگے اور ٹینگہ بھی ہوئے ہیں جن میں ایک خیل یا شاخ کے لوگ اپنی بہن بیٹی کو دوسرے خیل یا شاخ میں نہیں بیاہ سکتے اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں آٹھ لاکھ کے لگ بھگ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کو اپنی بہنیں و بیٹیاں اسی خیل یا شاخ میں بیاہنی پڑتی ہیں اور جسے یہ جرمانہ ہو جائے اس کی رقم بھی متعلقہ عمائدین کی مرضی سے خرچ ہوتی ہے۔
بعض ملک حضرات جرمانے کی یہ رقوم اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں اور اس کام کے لئے ان ملکوں نے باقاعدہ دفاتر کھولے ہوئے ہیں جن میں ان تک خبریں پہنچائی جاتی ہیں، اس میں اگر دونوں فریق باہمی رضامندی سے بھی رشتہ جوڑنا چاہیں تو ملک صاحبان اس پر جرمانہ عائد کر دیتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان تحصیل سراروغہ کے پولیس ایس ایچ او صغیر گیلانی سے جب بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات ان کے علم میں بھی آئے ہیں اور قانون کسی کو ایسے کاموں کے لئے دفاتر کھولنے کی اجازت نہیں دیتا۔
صغیر گیلانی کا کہنا تھا کہ ہم علاقائی طور پر تنازعات کے حل کیلئے ڈی آر سی تحصیل مصالحتی کمیٹی بنا رہے ہیں جس میں علاقے کے مشران نوجوان اور خواتین کی نمائندگی ہو گی جس کے تحت ایسے اور باقی علاقائی معاملات تھانوں میں ان تحصیل مصالحتی کمیٹی کے زیر نگرانی حل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ان کے فیصلوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کمیٹیوں کے قیام کا مقصد چھوٹے چھوٹے تنازعات کو مقامی سطح پر حل کرنا ہے تاکہ لوگوں کو عدالت نہ جانا پڑے۔ پولیس آفیسر کے مطابق ایسے اقدامات سے زیادہ تر مسائل کا بہتر حل پولیس کے زہرنگرانی ان کے اپنے علاقے کے رسم و رواج کی مناسبت سے ہی طے ہوں گے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کے تعاون سے امن و امان کی فضا قائم ہو گی۔
تحصیل سراروغہ سے تعلق رکھنے والی صائمہ کا کہنا ہے کہ چونکہ آج کل بہت مہنگائی ہوئی ہے اور ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی شادی میں اس کا سب کچھ اچھا ہو مگر اس علاقائی رسم ٹینگہ کی وجہ سے ان کی یہ خواہشات پوری ہونے سے رہ جاتی ہیں اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ لڑکی کا جب رشتہ طے کیا جاتا ہے تو لڑکی تو دور کی بات لڑکی کی ماں سے بھی نہیں پوچھا جاتا۔
جنوبی وزیرستان کی ایک خاتون سماجی کارکن، جو نہیں چاہتیں کہ ان کا نام سامنے آئے، سے اس معاملے پر ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر اچھے رسم وراج بھی ہیں جو کہ عین اسلامی ہیں اور یہاں کے لوگ عورتوں کی کافی عزت و احترام بھی کرتے ہیں، یہاں کے لوگ تبلیغ اور دوسرے اسلامی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر جہاں عورتوں کے حقوق کی بات آ جاتی ہے تو وہ اس معاملے میں اپنے اس پرانی رسم کی طرف رخ کر لیتے ہیں جو کہ نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق کی مکمل خلاف ورزی ہے، ”لڑکی کے متعلق فیصلہ کرنا والدین کی ذمہ داری ہے مگر یہاں پر کچھ فیصلے والدین کے بھی اختیار میں نہیں ہوتے اور وہ مجبور ہوتے ہیں کہ عمائدین علاقہ کی بات مانیں جس میں لڑکی کی شادی کے خرچے سے متعلق ٹینگہ بھی شامل ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہو کر لڑکی ذہنی مریضہ بن جاتی ہے کیونکہ سسرال اور والدین دونوں طرف سے اس کو روند دیا جاتا ہے، والدین سمجھتے ہیں کہ لڑکی کی شادی کروا دی تو اس کا حق پورا کر دیا اب شادی کے بعد اس کے سارے خرچ و لوازمات اس کے سسرال کی ذمہ داری ہے جبکہ سسرال والے اس کو وہ حقوق نہیں دیتے جو اسے ملنے چاہئیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں عورتوں میں ذہنی پسماندگی پائی جاتی ہے، لڑکی کے حقوق پر جرگے نہیں کیے جاتے، وراثت میں لڑکیوں کے حصہ پر بات نہیں کی جاتی، عورتوں کی تعلیم پر بات نہیں کی جاتی اور اگر کی جاتی ہے تو اس کی قیمت پر اس کو معاشرے میں برائیوں کی جڑ سمجھا جاتا ہے، جتنے ایسے کیسسز ہوتے ہیں جن میں لڑکی گھر سے بھاگ جاتی ہے یا ایسے دوسرے واقعات ہو جاتے ہیں تو اس میں قصور وار صرف لڑکی کو ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ لڑکے کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، وہ چاہے لاکھ برائی بھی کریں تو اس کو اتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی ایسے معاملات میں اس پر پابندیاں عائد کرنے کیلئے علاقے کے یہ ملکان و مشران جرگے کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے عورت کو ہی اس کے حقوق سے دور رکھا جاتا ہے، ”یہاں پر یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں جس میں عورت کی جرگے میں بات کو اس لحاظ سے اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح مردوں کی بات کو دی جاتی ہے اور عورتوں کی نمائندگی کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، عورت اگر بات کرتی بھی ہے تو کسی مرد کے توسط سے کرے گی جو جرگے میں اس کی نمائندگی اس طرح سے نہیں کرتا جس طرح ہونی چاہیے۔”
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے مولانا شمس الحق، جو کہ وراثت آگاہی مہم کے نام سے عورتوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کئے ہوئے ہیں، سے جب اس حوالے سے بات کی گئی تو مولانا نے ان مسائل پر اور اس رسم پر کچھ یوں روشنی ڈالی کہ اسلام نے عورت کو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے تعلیم کا بھی حق دیا ہے اور وراثت میں بھی اس کا حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جس طرح ہم باقی معاملات میں اللہ تعالی کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور اس کا حکم بجا لاتے ہیں اسی طرح ہمیں عورتوں کے وہ حقوق جو اسلام نے عورتوں کو دیے ہیں ان پر بھی عمل کرنا چاہئے کیونکہ اللہ کے حکم سے انکار کفر ہے اور ہمارے معاشرے میں جب عورت کے حقوق پر بات کی جاتی ہے تو رسم و رواج کو اسلام پر ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے عورت اپنے بنیادی حق سے محروم رہ جاتی ہے جبکہ اللہ کے حکم سے انکار واضح کفر ہے۔
مولانا شمس الحق نے کہا کہ میں خود بھی عورتوں کے حقوق پر کام کر رہا ہوں اور آواز بلند کر رہا ہوں اور دوسرے علماء و مفتی صاحبان، علاقے کے مشران و ملک صاحبان اور تعلیم یافتہ افراد سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کے اندر رہتے ہوئے آگاہی پھیلانے کی کوشش کریں تاکہ لوگوں میں شعور پیدا ہو جائے اور فرسودہ رسم و رواج کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔