"کرسمس کے موقع پر 22 ستمبر 2013 کا واقعہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے”
رمل اعجاز
مسیحی برداری کا سب سے بڑا مذہبی تہوار کرسمس ہر سال 25 دسمبر کو منایا جاتا ہے تاہم یہ تہوار صرف ایک دن کا نہیں ہوتا بلکہ پورا دسمبر ہی اس ایک دن کی تیاری میں گزر جاتا ہے۔ کرسمس کا تہوار حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی خوشی میں منایا جاتا ہے اور مسیحی عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کو امن کا شہزادہ قرار دیا جاتا ہے۔ ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا کی مسیحی برداری بھی حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی خوشی میں کرسمس منا رہی ہے لیکن ایسا کیسے ممکن ہے کہ اس خوشی کے لمحات میں وہ اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کو بھول جائیں؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے شارازار شاہد کہتے ہیں کہ 22ستمبر 2013کا واقعہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ پشاور کے آل سینٹ چرچ میں ہمارے پیارے عبادت کیلئے گئے تھے لیکن وہ لوٹ کر نہیں آئے۔ آج اس سانحہ کو گزرے 10سال سے زائد ہوگئے لیکن کوئی بھی کرسمس ان کو یاد کئے بغیر نہیں گزرتی۔ انہوں نے کہا کہ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں اس علاقے میں محفوظ ہیں لیکن جہاں کلیسیا کو نشانہ بنایا گیا وہیں اس خطے میں مسجد، امام بارگاہ اور جنازے بھی محفوظ نہیں رہے۔ ہر ملک میں امن کے قیام کیلئے مسیحیوں نے بھی اپنا خون دیا ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائےگا۔ شارازار شاہد کہتے ہیں کہ کرسمس کا انتظار سال بھر رہتا ہے جنگل بیلز بجتی ہیں رونق ہوتی ہے گھروں میں کرسمس ٹری سجائی جاتی ہیں۔ مٹھائی بنتی ہے نت نئے رنگ برنگے پکوان تیار کئے جاتے ہیں۔ پاکستان اور بلخصوص پشاور میں ہمیں کبھی کسی نے اس دن کو منانے سے روکا نہیں ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اس میں بہتری آرہی ہے اور کرسمس صرف مسیحی تہوار نہیں رہا بلکہ مسلمان دوست احباب بھی ساتھ دیتے ہیں۔
پشاور صدر کے تاریخی سینٹ جانز کیتھڈرل چرچ کے باہر یکم دسمبر سے ایک درخت سجا دیاجاتا ہے یہ کرسمس ٹری پشاوریوں کیلئے اعلان ہے کہ کرسمس کا مہینہ آگیا ہے۔ پورا دسمبر یہ کرسمس ٹری سڑک کنارے سجی رہتی ہے جس کے ساتھ پشاوری تصاویر بناتے ہیں اور چرچ کے اندر موجود کرسمس کی سجاوٹی اشیاء خریدتے ہیں۔
پشاور کی مائرہ بھی کرسمس کی تیاریوں میں ہی پورا دسمبر گزار دیتی ہیں۔ مائرہ کہتی ہیں کہ دسمبر سے قبل یعنی نومبر میں بھی کرسمس کی تیاریاں شروع ہوتی ہیں جو کرسمس ٹری دسمبر میں نظر آتے ہیں۔ انکی سجاوٹ اور خریداری نومبر میں کی جاتی ہے۔ کرسمس کی شام کو کیک کی خریداری ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ کیک کی مانگ بڑھ جاتی ہے لیکن عام دنوں میں کیک باسانی دستیاب ہوتے ہیں۔ مائرہ کو چند خدشات ہیں اور وہ امن و امان سے متعلق ہیں۔ مائرہ کہتی ہیں کہ مسیحی نوجوان اب اعلی تعلیم یافتہ ہیں لیکن انہیں صرف کلاس فور یعنی درجہ چہارم میں ہی نوکری دی جاتی ہے۔ انکا کوٹہ بھی درجہ چہارم تک محدود کردیا گیا ہے جو ان کے ساتھ زیادتی ہے اقلیتی برداری کو کلاس فور کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدوں پر جب تک نوکری نہیں ملے گی انکا معیار زندگی بہتر نہیں ہوگا اور اس اقدام کی اشد ضرورت ہے۔
شارازار شاہد گلہ بھی کرتے ہیں کہ مسیحی برداری کو اچھے الفاظ میں کئی مقامات پر یاد نہیں کیا جاتا انہیں کچرے والا یا چوڑا کہا جاتا ہے جو انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اگر یہی کچرے والے نہ ہو تو صفائی والوں کی صفائی کیسے ہوگی؟ دراصل مسیحی برداری کچرے والی نہیں بلکہ صفائی والی ہے جن کی بدولت یہ شہر اور ملک آج صاف ہے شارازار شاہد کہتے ہیں کہ مسیحی برداری کو آزادی چاہئے حالات ماضی سے بہتر ہیں لیکن اس میں مزید بہتری درکار ہے تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ سامنے آئیگا تو مذاہب کے مابین دوری بھی کم ہوگی۔
پشاور کے 29چھوٹے بڑے گرجا گھروں سمیت خیبر پختونخوا کے 100سے زائد گرجا گھروں کی تزئین و آرائش کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔ کمیونٹی سنٹرز اور گرجا گھروں میں یکم دسمبر سے ہی خصوصی عبادات کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھا جبکہ گرجا گھروں میں بھی کرسمس کی مناسبت سے خصوصی عبادات منعقد کی گئیں ہیں۔