بلاگزلائف سٹائل

بجلی کے بل میں ریڈیو کی فیس سمجھ سے بالاتر

 

رانی عندلیب

بچپن سے لے اب تک ہر دور میں سننے کو ملتا آرہا ہے کہ مہنگائی ہے یا ہوگئی ہے لیکن کورونا کے بعد تو مہنگائی کا لفظ حالات کے مطابق چھوٹا لگتا ہے کوئی اور لفظ ہونا چاہئے۔ موجودہ مہنگائی نے تو سب کی کمر توڑ دی ہے۔ سفید پوش فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں جن کی قوت برداشت کم ہے وہ مہنگائی سے خودکشی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

2007 سے لے کر 2012 تک روزانہ بم دھماکے ہوتے تھے اور اس میں لوگوں کی جانیں بے جا ضائع ہوتی تھیں۔ لیکن اگر آج کل دیکھا جائے تو جیسے ہی صبح ہوتی ہے۔ سرکار کی طرف سے عوام کے سر پر ایک نیابم پھوڑا جاتا ہے(مہنگائی کا)جو دکھائی اور سنائی تو نہیں دیتا البتہ اس کا اثر غریب عوام کے گھر پر ضرور پڑتا ہے جس سے ان کے گھر کا چولہا بجھتے بجھتے بچ جاتا ہے لیکن آخر کار کب تک ایسا ہوگا؟؟ اب روزانہ کی بنیاد پر ایسا ہی ہوتا ہے جیسے پچھلے دنوں وزارت خزانہ کے مطابق بجلی کے بل میں 35 روپے ٹی وی اور 15 روپے ریڈیو فیس کا اضافہ ہوگیا۔ یہ سفارش سینیٹ کمیٹی نے کی تھی جس پر کام کیا گیا ہے۔

پتہ نہیں پاکستان کے عوام کا کیا ہوگا ؟ حکومت تو اس کو ہر طریقے سے مارنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے منہ سے نوالہ چھینے کا کوئی بھی ہتھکنڈا ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔

ابھی بجلی کے بل میں ہی ریڈیو کی فیس بہت عجیب بات ہے؟ اج کل تو کوئی ریڈیو (اے۔ ایم) سنتا ہی نہیں اور اگر (ایف ایم)سننتے بھی ہے تو اس کا اپشن موبائل میں باسانی موجود ہے جس کو لوگ کہیں بھی اس کو سن سکتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں ریڈیو کو ہوئی پہچانتا بھی نہیں ہماری جو نئی جنریشن ہے وہ ریڈیو کو پہچانتی بھی نہیں۔ آجکل کی جنریشن شاید ریڈیو کو پہچانتی تو نہیں لیکن ہماری سرکار کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ ہر طرف سے عوام کو گھیرنا چاہتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں جہاں ایک طرف نوجوانوں کو کوئی روزگار نہیں ملتا جب کہ ٹیکسز کی بھرمار ہے۔

گیس نہ ہونے کے برابر ہے، مہنگائی عروج پر ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر  اشیائے خرد نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اسی طرح بلوں میں بھی نئی تبدیلیاں اتی رہتی ہیں چونکہ فی یونٹ 50 روپے کا ہو چکا ہے تو اس میں اب ریڈیو کے اضافی فیس کی کیا بات۔

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے جب بجلی کے بل میں 35 روپے ٹی وی کی فیس اتی تھی تو چلو ہر گھر میں ٹی وی دیکھا جاتا تھا لیکن اس وقت بھی مساجد کے بل میں بھی 35 روپے ٹی وی کافیس ہوتا تھا۔ تو کیا مساجد میں ٹی وی دیکھا جاتا تھا جو مساجد کے بل میں ٹی وی کا اضافی فیس ہوتا تھا؟ یہ تو سوچنے والی بات ہے لیکن پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔

ابھی بہت عرصے بعد وہی بات دوبارہ دہرائی گئی پہلے زمانے میں جب ہمارے نانا۔ نانی دادا دادی اور ہماری امی ابو ریڈیو سنتے تھے تو اج ہم اس کی فیس بھر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ بات مذاق میں کہی جا رہی ہے۔ (کہ ہمارے اباؤ اجداد جو ریڈیو سنتے تھے اس کی فیس اب ہم بھر رہے ہیں) لیکن کہیں نہ کہیں پر یہ بات سچ بھی ہے اور اس بات کو ہمیں قبول کرنا ہوگا۔ اگر ہمارے بڑے بزرگ ریڈیو سنتے تھے تو اس وقت اس دور میں ریڈیو سننا اس دور کے مطابق صحیح تھا لیکن اج کل جو اتنا سوشل میڈیا کا دور چل رہا ہے اس جدید دور میں جہاں ہر ایک چیز میں کافی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں تو ریڈیو کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے پروگرامز میں ایسی تبدیلیاں لائیں جو نئی جنریشن کی سوچ کے مطابق ہو. تو پھر شاید لوگ وہ پروگرام سن بھی لے۔

آجکل کی جنریشن فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام یہ چیزیں دیکھتے بھی ہیں اور اس پر جتنی بھی ویڈیوز ہوتی ہیں اس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں بنسبت سننے والی چیزوں کے لیکن ریڈیو تو پہلے سے بھی خسارے میں تھا اور اب تو یہ حکومت کے اوپر ایک بوجھ سا بن گیا ہے اس لیے ریڈیو ملازمین کی تنخواہیں پورا کرنے کے لیے بجلی کے بل میں اضافی فیس سے پورا کرنے کا ارادہ ہے یا کچھ اور؟ مجھے تو لگتا ہے کہ اب وہ دن دور نہیں جب دو تین مہینوں بعد بجلی کے بل میں وی سی آر، سی ڈی اور ڈش کی اضافی فیس بھی شامل کر دی جائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button