بلاگزلائف سٹائل

ملاوٹ زدہ خوراک اور ہماری صحت

 

نازیہ

کل ہی بازار سے دہی لانے کا اتفاق ہوا دہی سے لسی بنائی تو سب نے بڑے شوق سے پی لی۔ لیکن سب کے منہ پہ ایک ہی سوال تھا کہ اپ لوگوں نے اج دہی میں کچھ نیا محسوس کیا کیونکہ میں نے بھی محسوس کیا تھا تو پھر میں نے پوچھا کہ اچھا پہلے اپ لوگ بتاؤ تو سب کہنے لگے کہ ہمارے منہ میں ٹشو پیپر کی طرح کے چھوٹے چھوٹے سے ذرات آرہے ہیں۔ تو میں نے کہا ہاں میرے منہ میں بھی آرہے ہیں۔ پھر جب میں نے اس کو چیک کیا تو وہ بالکل اس بالائی کی طرح لگ رہے تھے جو دہی کی اپنی بالائی ہوتی ہے۔ پھر جب میں نے پتہ کیا تو سب نے بتایا کہ یہ ایک کیمیکل ہوتا ہے اور اس کو جب دہی میں ڈالا جاتا ہے تو بالائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ دہی میں ملاوٹ ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جا سکے کہ دیکھو اس میں کتنی زیادہ بالائی ہے۔ ویسے دہی میں پانی کے ملاوٹ کا سنا تھا لیکن اس کیمیکل کا تو بالکل بھی نہیں سنا تھا۔

اب سنیے ذرا دوسرا قصہ۔ میری ایک دوست مجھے کہہ رہی تھی کہ میں بازار گئی دیسی گھی لانے تو دکاندار سے جیسے دیسی گھی خریدا تو شکل میں بالکل ایسے لگ رہا تھا جیسے بالکل خالص دیسی گھی ہو لیکن جیسے میں اسے گھر لے کر ائی اور چولہے پہ چڑھایا تو دیسی گھی کے اندر کچھ  ایسے مواد کی ملاوٹ کی گئی تھی جو جل گیا۔میں نے دل میں کہا کہ یہ دیسی گھی تو کبھی نہیں جلا میں جب بھی استعمال کرتی ہوں پھر جب اس نے کسی سے پتہ کیا تو کسی نے اس کو بتایا کہ یہ اس میں ہلدی کی ملاوٹ کی گئی تھی۔ یہ ہلدی تھی جو جل گئی تھی۔ ایسے ملاوٹ شدہ دیسی گھی میں تھوڑی سی دیسی گھی زیادہ مقدار میں  عام کھانے کا گھی اور ہلدی ملائی جاتی ہے۔  ہلدی کو رنگ کے لیے ملایا جاتا ہے۔

کیا ہی بتاؤں ہمارے معاشرے کے زیادہ تر لوگ نا جائز منافع اور خوراکی اشیاء میں ملاوٹ سے ہی پیسے کما رہے ہیں۔ اب ذرا کان رکھیے گا میں چند ملاوٹ شدہ خوراکی اشیا کی بات کر رہی ہوں۔ ہے تو اور بھی بہت جس کے لیے شاید ایک بلاگ کم پڑ جائے۔

ان خوراکی اشیاء میں سب سے سستا نمک ہے مگر افسوس کہ اس سستے خوردنی نمک میں بھی پتھر کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ جس سے ائے روز لوگ گردے میں پتھری کی شکایت سے دو چار ہے۔

کیا اپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اکثر ہم لوگ پتیلے میں سے کھانے نکال رہے ہوتے ہیں تو برتن میں نمک سے جو ریت جدا ہو کر نیچے بیٹھ جاتی ہے وہ چمچ کے ساتھ رگڑ کھا رہی ہوتی ہے جس کا اسانی سے پتہ چل جاتا ہے۔ چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے، جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ ڈالا جاتا ہے جس کو ہم بڑے ہی شوق سے پیتے ہیں۔

بیکریوں میں بے دریغ  گندے انڈوں کا استعمال، رنگ شدہ انڈوں کو دیسی انڈوں کے نام پر بیچنا، مکئی کے آٹے میں میدے کی ملاوٹ، سرخ مرچوں میں چوکر، اینٹوں اور لکڑی کے بورے کی ملاوٹ، کالی مرچوں میں پپیتے کے بیجوں کی ملاوٹ، نام نہاد برانڈز کے کمپنیوں کے ڈبوں میں ملاوٹ شدہ اشیا کی پیکنگ تو ہمارے معاشرے میں عام سی بات ہے۔ پتہ ہے سب سے زیادہ ملاوٹ مصالحوں میں کی جاتی ہے۔ بلکہ زیادہ تر مصالحوں میں تو یہ بچی کچی سوکھی روٹیاں اور چوکر ڈالی جاتی ہے۔

اب اتی ہوں دودھ کی بات کرنے کیونکہ دودھ ہی ہے جو بچوں کی خاص غذا ہوتی ہے۔ ارے ان ظالموں نے بچوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔  دودھ میں خالی پانی کی ملاوٹ  ہو تو پھر بھی غنیمت سمجھوں مگر نہیں یہاں تو کئی اقسام کے ڈیٹرجنٹس اور زہریلے کیمیکلز کو دودھ کے اندر ڈالا جاتا ہے۔ پاؤڈر والے دودھ کو مشہور کمپنیوں کے ڈبوں میں بند کر کے بیچا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اۓ روز بچے بیمار ہوتے ہیں اور ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما صحیح سے نہیں ہو پاتی ہے۔ کچھ تو سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹس  اور پانی کو یکجا کرنے سے دودھ تیار کرتے ہیں۔

 

ہر چوتھا بندہ منہ، جگرکے کینسر، ہیپاٹائٹس، گردوں کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر، جلدی امراض اور معدے کے امراض سے کراہ رہے ہیں۔ ملک بھر میں سرکاری و نجی ہسپتالوں پر مریضوں کا رَش دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کوئی خطرناک وبا پھوٹ پڑی ہو۔  شاید ہی کوئی ایک ادھ گھر ایسا ہو جس میں کوئی بیمار نہ ہو۔ میرا دل تو تب دکھتا ہے جب ان ملاوٹ زدہ خوراکوں کی وجہ سے ادویات کی نوبت اتی ہے تو بعض اوقات ان ادویات میں بھی ملاوٹ کی بھرمار ہوئی ہوتی ہے جس سے بیمار افراد کی صحت اور لاغر ہو جاتی ہے۔

لیکن میں تو حیران اس بات پر ہوں کہ قانون کے ہوتے ہوئے بھی یہ مافیا کیسی ازاد گھوم رہی ہیں اور بڑی اسانی سے حرام کی کمائی کما رہے ہیں؟

ارے بد بختو! بس کرو، خوف خدا کرو اس ناجائز کمائی سے اپنی آخرت برباد کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر رہے ہو۔ خودغرضی نے انسان کو اس قدر حریص بنا دیا ہے کہ وہ دوسروں کی جان لینے سے بھی نہیں کتراتا ہے۔ یہ مردہ لوگ  پیسوں کے لالچ میں انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ نا تو ان کو خوف خدا ہے اور نہ ہی فکر آخرت۔

اس ملاوٹ مافیا کو محض تھوڑا بہت جرمانہ کرنا یا عارضی طور پر ان کا کاروباربند کرنا کافی نہیں ہے بلکہ انہیں عبرت ناک سزائیں دی جائے اور قانون کو مزید سخت بنایا جائے تاکہ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے والوں کا یہ غیر انسانی رویہ رک جائے۔

 

نازیہ بلاگر ہے جو مختلف سماجی مسائل پر بلاگز لکھتی ہے

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button