بلاگزلائف سٹائل

زمینیں قیمتی یا جانیں؟

 

سعدیہ بی بی

اللہ کی بنائی ہوئی اس خوبصورت زمین پر اس کی پیدا کردہ مخلوق ہی اپنے پیاروں کی جانیں لے رہی ہیں وہ بھی زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے کی خاطر۔ ائے دن زمینی تنازعات پر لاشیں گرائی جا رہی ہیں۔ ایک زمین کے ٹکڑے کی خاطر بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے۔ اج کل سب کے لیے زمین قیمتی ہے پر کسی کی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہمارے علاقے میں کچھ عرصہ پہلے زمین پر دو گروہوں کے درمیان تنازعات شروع ہوئے۔

ائے دن جرگہ بٹھایا جاتا لیکن ایک گروہ بھی صلح کرنے کو تیار نہ ہوتا۔ اب اللہ جانتا تھا کہ اصل میں اس زمین کا حقدار کون تھا۔ دونوں گروہ ہاتھ میں گویا بارودی مواد لے کر گھومتے کہ جونہی کسی نے ذرا سی بات کی فورا اگ کا شعلہ بھڑک اٹھے اور جھگڑا شروع ہو جائے۔ اسی طرح ایک دن دونوں فریقین میں جھگڑا ہوا اور فائرنگ شروع ہو گئی۔ فضا گولیوں کی اواز سے گونج اٹھی اور پھر پتہ چلا کہ ایک گروہ نے دوسرے گروہ کے تین لوگوں کو مار دیا اور وہاں سے بھاگ گئے۔

اس لڑائی نے خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیے۔ کتنے بچوں کو یتیم کر دیا۔ ان میں تو بعض ایسے تھے جو بے گناہ زخمی اور قتل کیے گئے۔ علاقے میں کئی دنوں تک سوگ منایا گیا۔کئی مہینوں تک وہ چھپ کر بیٹھے تھے جنہوں نے یہاں اتنی لاشیں گرائی تھی۔ اب یہاں کا گروہ بدلہ لینے کی اگ میں جل رہا تھا اور ان کی تلاش میں تھا۔ اس دوران دوسرے گروہ کے کچھ لوگوں نے صلح کے لیے ہاتھ اگے بڑھایا اور جرگے بھی بٹھائے لیکن انہوں نے ایک ہی جواب دیا کہ جنہوں نے ہمارے بندے مارے ہیں وہ بھی مریں گے۔ اگر یہاں لاشیں گرائی گئی ہیں تو وہاں کی بھی تین لاشیں گرائی جائیں گی۔

پھر ایک دن ان کا امنا سامنا ہوا اور اچانک گولیاں چل گئی اب ان کا بدلہ بھی پورا ہو گیا۔ اب دیکھا جائے تو ایک زمین نے کتنے لوگوں کی جان لے لی۔ انہیں لڑائی جھگڑوں کا اثر ان کے بچوں پر بھی ہوتا ہے۔ باپ کی موت کے بعد ان کے بچوں سے بدلہ لیا جاتا ہے اور بچے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ نہ وہ سکول جا سکتے ہیں اور نہ مدرسے کیوں ان کے دل میں یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں ان کے باپ کا بدلہ ان سے نہ لے لیا جائے۔ زمینی تنازعات میں روز بروز اضافہ ہوا چلا جا رہا ہے۔ زمین کہیں نہیں جاتی زمین جہاں ہوتی ہے وہیں رہتی ہے پر اس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں۔

انسان دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور اسے خالی ہاتھ ہی واپس جانا ہے۔ پھر ان میں یہ شعور کیوں نہیں کہ وہ زمین پر اپنے پیاروں سے لڑنے بیٹھ جاتے ہیں۔ جھگڑے میں نقصان دونوں فریقوں کا ہوتا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ کسی کا کم تو کسی کا زیادہ۔ جس میں ذرا سی بھی عقل ہوگی وہ کبھی بھی جھگڑے کو اچھا نہیں سمجھے گا  لیکن ذرا سی بات پر جھگڑنے والوں کی عقل پر نہ جانے کون سا پردہ پڑ جاتا ہے کہ نہ انہیں اپنی عزت و وقار کا احساس رہتا ہے نہ سامنے والی کی عزت کا۔ دو لوگوں کا اختلاف کسی بھی حد تک بڑھ سکتا ہے اور بعض دفعہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ دست گریباں ہونے کی نوبت ان پہنچتی ہے۔

دیکھا جائے تو آجکل زمینوں پر بہت زیادہ جھگڑے ہوتے ہیں، زمین نے کئی قمیتیں جانیں لے لی ہے لیکن زمین کہیں نہیں گئی اسی جگہ موجود ہے۔ قبائلی اضلاع میں بھی زمینی تنازعات کافی زیادہ ہے اور وہاں بھی آئے روز فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں اور کئی لوگ مارے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی نہیں رکا۔ میں سجھتی ہوں اس کو روکنا چاہئے کیونکہ اس میں پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

میرے خیال میں انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ دکھ سکھ ، خوشی اور غم دن رات کی طرح اتے ہیں۔ شادمانی دیکھنا بھی اسے نصیب ہوتا ہے اور کبھی رنجیدگی سے بھی اس کا دل کبیدہ خاطر ہوتا ہے۔ اب اس کا یہ مطلب یہ تو نہیں کہ اپنے پیاروں سے ہی زمینی ٹکڑوں کی خاطر لڑ پڑیں۔ جھگڑے میں نقصان ہے تو ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہیے کہ جھگڑے کی نوبت ہی نہ اۓ اور جو زمینوں کا حقدار ہے اسی ہی مل جائے۔ اس کے لیے اپنے پیاروں کا خون نہ بہانا پڑے۔

سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہے اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button