بلاگزلائف سٹائل

پتہ نہیں لوگ کیا کہیں گے۔۔۔!

نازیہ

آئیے میں آپ کو آج اس ایک جملے، اس خیال ”پتہ نہیں لوگ کیا کہیں گے” کے بارے میں بتاؤں۔ اس خیال نے ہمارے معاشرے کو بُری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ آگے بڑھنے کی لگن ہو، کچھ نیا کرنے کی لگن یا اپنی قابلیت پر اعتماد کرنے کا مقام آئے تو  ہر دوسرا انسان ذہنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے یہ سوچ کر کہ پتہ نہیں لوگ کیا کہیں گے؟ مجھ سمیت ہر فرد اِس جملے کا شکار ہو چُکا ہے۔

اگر یہاں میں اپنا ذکر کروں تو میں نے بھی اپنی زندگی سے کافی سبق حاصل کیا ہے، میرے بھی اعصاب پر یہ خیال اتنا سوار ہو گیا تھا کہ میں اگر کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتی تو فوراً یہ خیال ”لوگ کیا کہیں گے” میرے ارادوں کو کھوکھلا کر دیتے تھے۔ پھر میں نے سوچا یہ تو مجھے مضبوط بننے کے بجائے کمزور کر رہا ہے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ میں اس سوچ سے باہر آ گئی۔

جب بھی میں نے کچھ کرنے کا، آگے بڑھنے کا ارادہ کیا ہمیشہ مجھ پہ تنقید کی گئی، ہمیشہ مجھے یہ بتایا گیا کہ میں یہ کام کروں گی تو پتہ نہیں لوگ کیا کہیں گے؟ آخر کیوں؟ زندگی ہماری اور فکر ہم اور لوگوں کی کر رہے ہوتے ہیں؟

دوسرے لوگوں کے لئے جینا

جب ہم کسی تکلیف میں ہوتے ہیں تو لوگ ہمارا دُکھ بانٹنے نہیں آتے بلکہ لوگ اس وقت چپ کر جاتے ہیں اور یا پھر تنقید کرتے ہیں، آخر کیوں ہمیں لوگوں کی اتنی پرواہ ہوتی ہے، آخر کیوں ہم اپنی زندگیوں کے اہم فیصلے لیتے وقت اور لوگوں کا سوچ رہے ہوتے ہیں؟ اور آخرکار یہی سوچ ہماری ناکامی کا باعث بنتی ہے۔ اور وہی لوگ پھر ہمارے تماشائی بن جاتے ہیں۔

اس حوالے سے میں نے کافی لوگوں کی رائے لی جن میں زیادہ تر نے یہی کہا کہ اسی ایک خیال ‘پتہ نہیں لوگ کیا کہیں گے’ نے تو ہمیں باندھ کر رکھا ہے، بچپن سے ہی ایسا کرتے آ رہے ہیں اور اسی ایک خیال نے ہمیں جکڑے رکھا ہے اور ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں۔

اگر دیکھا جائے تو لوگ کامیاب اس لئے ہیں کیونکہ وہ وہی کرتے جو اُنہیں اچھا لگتا ہے۔ جس دن ہم اس ایک جملے سے جان چھڑائیں گے اُس دن ہمیں زندگی کا اصل مقصد معلوم ہو گا، ہمیں یہ احساس ہونا ضروری ہے کہ یہ زندگی ہماری ہے نا کہ اوروں کی، ہمیں لوگوں کی فکر، ان کی پرواہ کیے بنا آگے بڑھنا ہو گا اور وہ کام کرنا ہو گا جو ہمیں اچھا لگے، جس سے ہمارا ضمیر مطمئن ہو۔

والدین کا قصور

ویسے اس خیال کے ہمارے اعصاب پر سوار ہونے میں زیادہ قصور ہمارے والدین کا بھی ہوتا ہے جو بچپن سے ہی ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ فلاں کے بچے نے فلاں کام کیا ہے، فلاں کا بچہ یہ بن گیا ہے اور وہ بن گیا ہے اور تم نے ہر حال میں اس کی طرح بننا ہے کیونکہ پھر لوگ کیا کہیں گے؟ اسی وجہ سے بچوں کو  مجبور کیا جاتا ہے جو وہ کرنا چاہتے ہیں وہ نہیں کر پاتے اور وہ کسی اور سمت جا رہے ہوتے ہیں، ایک نامعلوم راستے کی طرف اُنہیں یہ سوچ کر دھکیل دیا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟

والدین کو سمجھنا چاہیے کہ یہ دور جہالت کا دور نہیں ہے، کہنے کو تو ہم سب اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہتے ہیں لیکن کرتے وہ ہیں جو اوروں کو پسند ہو۔ زندگی میں جدت آ چکی ہے، بچے اگر کچھ نیا کرنا چاہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ یہاں میں ان بچوں کی مثال دوں گی جنہوں نے زیادہ نمبر نہ لینے کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔ صرف اس لئے کہ دیکھو فلاں کے بچے نے کتنے اچھے نمبر لئے ہیں۔

اوروں کے ساتھ برابری کرنا

اگر امیر لوگوں کے گھروں میں دھوم دھام سے شادیاں ہو رہی ہوتی ہیں تو غریب کے بچے بھی یہ دیکھ کر ان جیسا فنکشن کرنا چاہتے ہیں۔ آخر وہ کریں گے کیسے جن کو دو وقت کا کھانا مشکل سے ملتا ہو۔

آج کل اگر جنازوں میں دیکھا جائے تو شادیوں کی طرح مختلف کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، آخر جنازوں میں ایسا کیوں؟ شاید، بلکہ یقیناً اس لئے کہ پتہ نہیں لوگ کیا کہیں گے۔ اور اس طرح نا چاہتے ہوئے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں جو ہمیں خود تو پسند نہیں ہوتا لیکن لوگوں کے ساتھ برابری کے چکر میں کر جاتے ہیں۔

احساس کمتری کا شکار

آخر ہم کب تک اس احساسِ کمتری کا شکار رہیں گے؟ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہو گا  کیونکہ وقت بدل چکا ہے۔ لوگوں کا تو یہ پسندیدہ کام ہے؛ اگر کوئی اچھا کام کرے تو بھی وہ باتیں کریں گے، اگر بُرا کام کریں تب بھی تنقید کریں گے کیونکہ دُنیا آپ کو کسی حال میں بھی جینے نہیں دیتی۔

جس دن ہم نے اس ایک خیال سے کنارہ کیا اُسی دن سے ہمیں زندگی کا اصل مقصد معلوم ہو جائے گا اور ہم میں خودی کا احساس پیدا ہو گا، اور یہ احساس بھی کہ یہ زندگی ہماری ہے نا کہ اور لوگوں کی، ہمیں لوگوں کی فکر و پرواہ کئے بغیر آگے بڑھنا ہو گا اور ہر وہ کام کرنا ہو گا جس کے کرنے سے ہم خوشی محسوس کریں اور ہمارا قلب مطمئن ہو۔

زیادہ تر لوگ نا تو خود خوش رہتے ہیں اور نا ہی اوروں کو خوش رہنے دیتے ہیں، ‘لوگ کیا کہیں گے’ اسی ایک بات میں ہماری زندگی کا مقصد موجود ہے۔ حالانکہ وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ہم ساری زندگی یہ سوچ کر گزار دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے جبکہ آخر میں لوگ صرف اتنا ہی کہتے ہیں ”اناللہ وانا الیہ راجعون!”

لوگو! بس کرو، لوگوں کی پرواہ چھوڑ دو اور آگے بڑھو، تمام نامکمل اور بگڑے کام ٹھیک ہو جائیں گے۔ بلکہ ہم سب نے سوچنا یہ ہو گا کہ اگر ہم کچھ برا کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے، تب دیکھنا ہم کیسے کامیاب نہیں ہوتے ہو۔ خدارا! اپنی زندگیوں کو تباہ ہونے سے بچائیں اور اس جملے کو، اس خیال کو اپنی زندگیوں سے نکال باہر پھینکیں۔

نوٹ: نازیہ ایک گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button