بلاگزفیچرز اور انٹرویو

آئینِ پاکستان، توہین رسالت اور اعتدال کی راہ

مولانا خانزیب

نبوت په محمد باندې تمام شو
نشته پس له محمده انبياء

اسلام اعتدال کا دین ہے، وہ ہر بات میں تحقیق اور دلیل سے بات کرتا ہے۔ توہین رسالت کے حوالے سے ایسا جذباتی ماحول بنایا جاتا ہے کہ اس ماحول میں بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، پھر جب اختلاف رائے میں بات کو ہر ایک فتویٰ بازی تک لے جاتا ہو تو اس ماحول میں آپ کیا کہہ سکیں گے؟

پختون معاشرے میں بدقسمتی سے مارنے مروانے کو ہی بہادری اور دین کا درجہ دیا گیا ہے اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر وہ جذباتی لوگ پورا کر دیتے ہیں جو بات کی تہہ اور حقیقت میں جانے کے بجائے اسے مزید الجھا دیتے ہیں۔ اس جذباتیت اور غیرحقیقت پسندانہ ماحول میں سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خدارا! اگر آپ کا کسی کے ساتھ سیاسی اختلاف ہے یا آپ قومی سیاسی جدوجہد سے ناواقف ہیں تو اس کی کسر پیغمبر خداؐ کی مقدس شان میں حقیقت کو فراموش کر کے اپنی بدنیتی کی شکل میں یہاں نہ نکالیں، یہ سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ امت کے عقیدت کا مسئلہ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جذباتیت کے ماحول میں ہم مزید فتنوں اور خون خرابے کو جنم دیں۔

دوسری بات یہ کہ جو لوگ آئین پاکستان پر یقین رکھتے ہیں وہ توہین رسالت کے قانون سے اختلاف نہیں کر رہے کیونکہ آئین کی رو سے اب یہ متفقہ قانون ہے اور بحیثیت مسلمان کسی کو اب اس سے اختلاف کرنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ آئین میں ترمیم و تغیر کیلئے ایک طریقہ کار موجود ہے۔ اختلاف کرنے والے اس طریقے سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر جب تک یہ قانون ہے کسی کو اس سے انکار کا حق نہیں ہے۔

ختم نبوت پر باقاعدہ طور پر حلف حکومتی ایوانوں میں لیا جاتا ہے، پیغمبر خداؐ کے زمانے سے لے کر اب تک یہ مسائل پیدا ہوتے رہے ہیں مگر یہ وقت کے ساتھ حل ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے جو لوگ اختلاف کرتے ہیں ان کا اختلاف کسی کے انفرادی اقدام، ماورائے قانون و عدالت ردعمل یا کسی کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کے اقدام کی حد تک ہے کہ جب آئین میں توہین رسالت کی سزا مقرر ہے، اسی کی بنیاد پر عدالتی ٹرائل کئی سالوں سے چل رہا ہوتا ہے تو کیا اسلام، قانون اور ہماری روایات ایک فرد کو انفرادی طور پر ایسے اقدام کی اجازت دیتا ہے؟

یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کو لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر نظر انداز کر رہے ہیں اور بات کو سب و شتم اور کفر کے فتووں تک لے جاتے ہیں اور کسی کے اس اصولی اختلاف کو توہین رسالت سے انکار اور قادیانیت کے پرچارک سے تعبیر کراتے ہیں جو بڑا غیرمناسب اور خطرناک رجحان ہے جس کی اصلاح پورے معاشرے کے حوالے سے ہونی چاہئے۔

جتنے بھی صاحب الرائے لوگوں کا اختلاف اس اقدام کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے وہ اس طرح ذاتی اقدام کی مخالفت اس اقدام اور اس کے قانون کے حوالے سے عدم جواز کی بنیاد پر کر رہے ہیں اور کسی نے بھی توہین رسالت کے قانون پر کوئی اعتراض و تنقید نہیں کی ہے۔ یعنی توہین رسالت کے قانون سے نہ اختلاف و نکیر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی تنقید بلکہ معاشرتی طور پر اس اقدام کی حمایت کی مخالفت اور قانون کی کمزوری پر تنقید کی گئی ہے جو بالکل جائز امر ہے۔ جو لوگ اس انفرادی اقدام کو توہین رسالت کے قانون سے انکار تعبیر کر رہے ہیں میرے خیال میں وہ غلطی پر ہیں اور درحقیقت وہ خود پیغمبر خداء کے اسوہ حسنہ اور تعلیمات سے انحراف کا ارتکاب کر رہےہیں جس میں قرآن کی رو سے تحقیق اور چھان بین کا تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا۔

سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ میں بھیجا (سریہ کہتے ہیں لشکر کے ایک ٹکڑے کو جس میں چار سو آدمی تک ہوتے ہیں) ہم صبح کو لڑے حرقات سے جہینہ میں سے ہے (حرقات بضم حا اور فتح را ایک قبیلہ ہے) پھر میں نے ایک شخص کو پایا اس نے ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ” کہا۔ میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ بعد اس کے میرے دل میں وہم ہوا (کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے ہتھیار سے ڈر کر کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں“، (مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تجھے کہاں سے معلوم ہوا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی، کاش! میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعد ایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے کفر کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں) سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں کسی مسلمان کو نہ ماروں گا جب تک اس کو ذوالبطین یعنی اسامہ نہ مارے۔ (”بطين” تصغیر ہے بطن کی اور بطين کہتے ہیں پیٹ کو۔ (اسامہ رضی اللہ عنہ کو ذوالبطین اس لئے کہتے ہیں کہ ان کا پیٹ بڑا تھا)۔  ایک شخص بولا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لڑو ان سے جب تک کہ فساد نہ رہے اور دین سب اللہ کیلئے ہو جائے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا ہم تو لڑے (کافروں سے) اس لئے کہ فساد نہ ہو اور تو اور تیرے ساتھی اس لئے لڑتے ہیں کہ فساد ہو۔

جب آئین میں اس جرم کی سزا متعین ہے اور پھر اس مسئلے کو عدالتوں میں لے جایا جاتا ہے تو عدالتی فیصلوں میں تاخیر کو آپ کس طرح قانون کو ہاتھ میں لے کر اس انفرادی اقدام کو جائز کروا سکتے ہیں؟ اس حوالے سے تمام فقھاء امت کا اتفاق ہے کہ قضاء کی تنفیذ کا حق و اختیار صرف حاکم وقت کو ہے نہ کہ کسی فرد یا گروہ کو۔

پاکستان میں موجودہ وقت کے سب سے بڑے مفتی اور اسلامی شریعت کورٹ کے سابق جج مفتی تقی عثمانی اس حوالے سے کھل کر کہتے ہیں کہ سلمان تاثیر کا ماورائے عدالت قتل درست نہیں تھا اسی لئے تو ممتاز قادری پھانسی پر چڑھا، درس کی ایک تقریب میں توہین رسالت اور اس کی سزا سے متعلق ایک طالبعلم نے دریافت کیا تو تقی عثمانی نے بتایا کہ حنفی مسلک میں گستاخی کی سزا قتل نہیں بلکہ کوئی بھی حاکم وقت اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے لیکن دوسرے آئمہ تصدیق شدہ گستاخی پر قتل کے قائل ہیں اور یہ حکم آئین پاکستان کا حصہ بنایا گیا ہے جو اب متفق علیہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں ممتاز قادری کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کو بھی درست نہیں سمجھتا کیونکہ اگر اس نے گستاخی کی تھی تو عدالت کے سامنے وہ ثبوت پیش کرنے چاہیے تھے۔

مفتی تقی عثمانی پاکستان میں دیو بندی مکتب فکر کے جید عالم تصور کیے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی رائے کو مکتب دیوبند میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یا تو ملکی عدالتوں میں ان کیسوں کو نہ لے جایا جائے اور جس کے جی میں جو آئے وہ کرے لیکن اس الزام کی آڑ میں پھر جو ذاتیات کی بنیاد پر اقدامات کئے جائیں گے اس کا گناہ پھر کس کے سر ہو گا؟

ملک کے عدالتی سسسٹم کو ٹھیک کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی یا یہ تاخیر عدالتی فیصلوں میں کون سے کیس میں نہیں ہوتی؟ اگر تاخیر کو آپ ذاتی اقدام کی دلیل تصور کرتے ہیں تو پھر تو لاکھوں مقدمے ان عدالتوں میں تاخیر و التوا کا زمانوں سے شکار ہیں پھر ہر کوئی اس جواز کو لے کر قانون ہاتھ میں لے گا اور یہ ایک بڑے خون خرابے کا باعث بنے گا۔

مفتی تقی عثمانی اور دوسرے تمام جید علماء کرام کی رائے یہی ہے کہ عدالتی نظام کے ہوتے ہوئے کوئی بھی فرد قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا کیونکہ ملکی آئین میں جب اس مسئلے کو تسلیم کیا گیا ہے تو پھر اس حوالے سے انفرادی عمل اور اشتعال انگیزی کی کون سی ضرورت رہ جاتی ہے؟

تعزیرات پاکستان میں آئینی شقوں 295 اور 298 کو قانون توہین رسالت کہا جاتا ہے، جن میں سے ایک شق 295 (سی) کے تحت سنگین گستاخی کی سزا موت مقرر کی گئی ہے بشرطیکہ وہ عدالتی اصولوں پر ثابت ہو جائے، کسی کا توہین کہنا کافی نہیں ہوتا۔

اس قانون کے تحت پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت، پیشکش یا ان کے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ سٹیٹمنٹ دینا جس سے ان کے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو یا ان کو نقصان دینے والا تاثر ہو یا ان کے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا، ان سب کی سزا عمر قید موت یا دوسری سزا کے ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔

اگر قانون سے ماوراء انفرادی اقدام کو جائز کیا گیا تو پھر ہر مسئلے میں وہ خون خرابہ ہو گا اور اس کو وہ جواز میسر آئے گا کہ پھر وہ کسی کے بس میں بھی نہیں ہو گا کہ اس کو روکے۔ یہ کیس ملکی عدالتی سسسٹم کی بوسیدگی کی علامت بن گیا ہے اور وہ جج بھی ان رویوں اور انفرادی اقدامات میں برابر کے مجرم ہیں جو لاکھوں کے حساب سے تنخواہیں لیتے ہیں اور توہین عدالت جیسے حساس کیس میں بھی ان کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ کیس کا دو سالوں میں فیصلہ کریں، اگر عدالتی ثبوتوں کی روشنی میں وہ مجرم تھا تو اسے دو سالوں میں سزا کیوں نہیں ہوئی اور اگر وہ بیگناہ تھا تو اب تک اس کے کیس کی سماعتیں لگا کر ڈر کے مارے فیصلہ نہ کر پانے کی وجہ سے ان کو اس کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں۔

آخری بات کہ ہم سب مسلمان ہیں، ختم نبوت پر ہمارا ایمان ہے، جب بھی کوئی ایسی صورتحال پیش آ جائے تو جذباتی ماحول ایک دوسرے پر کفر و نفاق کے فتوے لگانے کے بجائے ہوش وحواس کے ساتھ قوم کی درست رہنمائی کریں، ایسا نہ ہو کہ کل ہم میدان محشر میں پیغمبر پاکؐ کے سامنے کھڑے نہ ہو سکیں کہ ہم نے امن، پیار اور رحمت کے اس استعارہ کے نام پر نفرتیں کیوں پیدا کیں اور بغیر تحقیق کے ایک دوسرے کو برے القابات کیوں دیئے، سیاسی اور شخصی اختلافات کو اس مقدس ہستی کے نام پر استعمال نہ کریں، اگر کسی کے ساتھ آپ کو اختلاف ہے، بیشک کریں، اس کے اور بہت سے طریقے ہیں مگر کم از کم اس حساس ایشو پر ہر کسی کے حوالے سے احتیاط سے بات کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button