خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

جذام کے مرض، اس کے علاج بارے آپ کیا جانتے ہیں؟

رانی عندلیب

”جذام کی بیماری مائیکرو بیکٹیریم لیپری نامی بکیٹیریا سے پھیلتی ہے، خواتین کے مقابلے میں مردوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔” یہ معلومات یا آگاہی لیڈی ریڈنگ ہسپتال لیپروسی یا جذام ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر ہدایت اللہ سے حاصل ہوئی۔

ٹی ٹی این کے ساتھ اس مرض کے حوالے سے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ جذام بیماری کی عام علامت یہ ہے کہ یہ دو جگہ پر حملہ آور ہوتی ہے جلد اور اعصاب پر، اگر جلد پر اٹیک کرے تو ہاتھ پاؤں پر سفید دانے نکل آتے ہیں، اگر اعصاب پر اٹیک کرے تو ہاتھ پاؤں سن ہو جاتے ہیں، اس حالت میں مریض کو کچھ پتہ نہیں چلتا اور روزمرہ کے کام کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ پاؤں میں زخم پیدا ہو جاتے ہیں، ”یہ وہ زخم یا دانے ہوتے ہیں جو عام علاج سے ٹھیک نہیں ہوتے جب تک کہ جذام بیماری کا علاج شروع نہ کرے۔”

ڈاکٹر ہدایت اللہ نے علاج اور آگاہی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مرض میں زیادہ تر مبتلا لوگ سکن سپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اگر علامات جذام کی ہوں تو پھر ان کو لیپروسی ڈیپارٹمنٹ ریفر کرتے ہیں، ”یہاں بھی علاج سے پہلے مریض کا ٹیسٹ ہوتا ہے جس کو بی آئی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے بیکٹیریل انڈہکس، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مریض کے بدن میں جراثیم موجود ہے یا نہیں۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ ہاتھ پاؤں کی حس معلوم کرنے کے لیے بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے، اگر مریض کے ٹیسٹوں سے ثابت ہو جائے کہ وہ جذام کے مرض میں مبتلا ہے تو اس کو لیپروسی وارڈ میں داخل کیا جاتا ہے جو 20 بیڈ پر مشتمل وارڈ ہے، 5 زنانہ اور 15 مردانہ مریضوں کے لیے مختص ہیں۔

دو سال قبل لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں پورے خیبر پختونخوا سے 400 تک کے جذام کے مریض ہر سال آتے تھے جس میں پچھلے دس سالوں سے کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ پچھلے سال پورے خیبر پختونخوا سے تقریباً سو مریض آئے۔

علاج کے حوالے سے ڈاکٹر ہدایت اللہ نے کہا کہ جذام مرض کے علاج کا دورانیہ ایک سال ہوتا ہے اور عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ٹیبلیٹس ملتی ہیں جو مریضوں کو فری میں دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ جذام مریضوں کو ہسپتال کی جانب سے کھانا پینا بھی مفت دیا جاتا ہے، ”بچوں میں یہ بیماری نا ہونے کے برابر ہے سو میں سے دو بچے اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بیماری ایک بندے سے دوسرے میں چھونے، چھینک یا کھانسی کے زریعے منتقل ہوتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button