ان خواتین کے نام جن کی چھٹی ہوتی ہے نہ کوئی تنخواہ!
خالدہ نیاز
"تم کیا کرتی ہو سارا دن، گھر پر آرام ہی تو کرتی رہتی ہو کبھی کوئی کام بھی کرلیا کرو” ہم میں سے بعض لوگ اکثر بڑی آسانی سے گھر کی خواتین کو یہ الفاظ سنا دیتے ہیں لیکن کیا یہ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ جو خواتین گھر پر رہتی ہیں یعنی "ہاؤس وائف” ہوتی ہیں وہ کتنا کام کرتی ہیں؟ شاید کیا یقیناً ہم میں سے بہت ہی کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں نے کبھی یہ خیال آیا ہو گا کہ یہ خواتین بھی ملازمت پیشہ خواتین جتنا کام ہی کام کرتی ہیں یا شاید اس سے بھی زیادہ۔
کام ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا
میں تو جب بھی دفتر سے گھر پہنچتی ہوں تو مجھے بنا بنایا کھانا اور چائے مل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میری والدہ صاحبہ باقی بہن بھائیوں اور والد صاحب کا بھی خیال رکھتی ہیں اور گھر کو بھی سنبھالتی ہیں جو ایک بہت مشکل کام ہے۔
اس بات کا اندازہ انسان کو تب ہی ہوتا ہے جب خود اس کے کاندھوں پر گھر کی ذمہ داری آجاتی ہے، میری والدہ اگر کہیں کسی روز گھر پر نہ ہوں تو میرے لیے تو وہ ایک دن بھی بہت لمبا ہو جاتا ہے، میں کام کرتی رہتی ہوں اور کام ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
کبھی کسی کے لیے چائے بناتی ہوں تو کبھی کھانا، کبھی کسی کی پانی پانی کی آواز پر دوڑی دوڑی جاتی ہوں تو کوئی کہتا ہے کہ کپڑے استری کرکے دو۔ یوں سارا دن کام کرتے کرتے گزر جاتا ہے لیکن اس کے بعد سب سے مشکل مرحلہ جو آتا ہے وہ صبح ناشتہ بنانے کا ہوتا ہے، اتنا مشکل کہ بتانا بھی مشکل لگ رہا ہے۔ پہلے تو اٹھنا ہی دشوار، کسی طور اٹھوں بھی تو پھر سب کے لیے ناشتہ بنانا، اف! سچ کہوں تو صرف ایک دن کیلئے بھی مجھ سے یہ کام نہیں ہوتے اور ہماری مائیں ہیں کہ عمر بھر یہی کام کرتی رہتی ہیں اور کبھی اف تک نہیں کیا۔
چائے سے لیکر کھانا بنانے تک
گھر میں رہنے والی خواتین صبح اٹھ کر پہلے ناشتہ بناتی ہیں پھر سب کو اٹھا اٹھا کر ناشتہ کرواتی ہیں، پھر بچوں کو تیار کرکے سکول بھیجتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کو لنچ بکس بھی تیار کر کے دیتی ہیں، سب کو کپڑے دیتی ہیں اور رخصت کرکے پھر گھر کے کاموں میں لگ جاتی ہیں۔
صبح ناشتے کے بعد گھر کی صفائی کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے، برتن بھی دھونا پڑتے ہیں۔ پھر دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگ جاتی ہیں اور اس کے بعد رات کے کھانے کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ اور یوں ایک مصروف دن گزارنے کے بعد بھی صبح پھر ایک اور مصروف دن ان کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔ ویسے ایک بات بتاؤں برتن دھونے سے میری تو جان جاتی ہے لیکن سلام ان خواتین کو جو روزانہ کم و بیش تین مرتبہ برتن دھوتی ہیں۔
کوئی چھٹی نہیں ہوتی!
ہدفتروں اور باقی جگہوں پر کام کرنے والے ہمارے جیسے لوگوں کو تو ہفتے میں ایک دن کی چھٹی مل ہی جاتی ہے لیکن جو خواتین گھر پر رہتی ہیں ان کی ہفتے میں ایک چھٹی تو دور کی بات عید اور باقی تہواروں پر بھی ان کی کبھی چھٹی نہیں ہوتی اور ادھر حال یہ کہ چھٹیوں کے دنوں اور تہواروں کے مواقعوں پر ہماری فرمائشیں بھی زیادہ ہوجاتی ہیں، یہ بنا کر دیں اور وہ بنا کر دیں۔
ویسے کیا خیال ہے چھٹی کے دن ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے یا نہیں، ویسے اگر میں اپنی بات کروں تو چھٹی والے دن میں اپنی ماں کا ہاتھ ضرور بٹاتی ہوں، صفائی کرنے میں، کپڑے دھونے اور استری کرنے میں لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آج تو چھٹی ہے ہم نہیں کرتے کوئی کام بس آرام کرنے دیں۔ میں کہتی ہوں سب کو گھر کے کاموں میں مدد کرنی چاہیے، ان کی مدد سے کم از کم ان خواتین کو بھی فرصت کے کچھ لمحات میسر آئیں گے اور وہ بھی کچھ وقت خود کو دے پائیں گی۔
بچوں کی تربیت کی ذمہ داری
خواتین پر گھر کے کاموں کے ساتھ ایک ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کریں۔ خواتین بچوں کی تربیت بھی بھر پور طریقے سے کرنے کوشش کرتی ہیں لیکن اگر کبھی بچے غلط راستے پر نکل پڑے تو بھی ان کو ہی الزام دیا جاتا ہے کہ کیسی تربیت کی ہے بچوں کی، اگر صحیح تربیت کی ہوتی بچوں کی تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا لیکن ایسا کہتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری صرف خواتین کی تو نہیں ہے۔
مان لیا کہ باپ گھر کا چولہا جلائے رکھنے کے لیے سارا دن خوار ہوتا ہے، محنت مزدوری کرتا ہے لیکن عورت بھی گھر پر سارا دن کام میں لگی ہوتی ہے لہٰذا ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں مل کر بچوں کی تربیت کریں اور انہیں اچھا انسان بنانے کی کوشش کریں۔
نوکر یہی کام کرنے کے کتنے پیسے لیں گے
جن لوگوں کے گھر میں خواتین نہیں ہوتیں تو ان کو پتہ ہے کہ وہ جب خود تھکے ہارے گھر پہنچتے ہیں تو پھر گھر کا کام کیسے کرتے ہیں، ہاسٹلوں میں رہنے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کیونکہ وہ اپنا کام خود ہی سرانجام دیتے ہیں۔
خیر میں اپنے اصل مدعا پہ آتی ہوں کہ اگر ہم حساب لگالیں تو ہماری خواتین جتنا کام گھر پر کرتی ہیں اگر یہی ہم نوکروں سے لیں تو وہ کتنا معاوضہ لیں گے؟ اور آج کل اس مہنگائی کے دور میں کون کرسکتا ہے کہ وہ کم بجٹ میں نوکر کو رکھ سکے اور پھر نوکر ویسے گھر کو سنبھال بھی نہیں سکتے جس طرح ایک خاتون سنبھال سکتی ہیں۔
کہنے کا مقصد یہی ہے کہ ہماری جو خواتین گھروں پر رہ کر ہمارے گھروں کو سنبھالتی ہیں، ایک چوکیدار کی طرح گھر کا خیال بھی رکھتی ہیں، تنخواہ کے بغیر اور چھٹی بھی نہیں کرتیں تو ان کی ان خدمات کو عزت سے دیکھنا چاہیے، کبھی کبھی ان کی تعریف کر لینی چاہیے کہ آپ بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور ان کو فرصت کے کچھ لمحات بھی ملنے چاہئیں جو وہ اپنے لیے جی سکیں۔
ایک اور بات جو نہایت ضروری ہے کہ ہماری جو خواتین باہر جاکر دفتروں میں کام کرتی ہیں یعنی ورکنگ وومن ہیں، وہ ورکنگ وومن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا گھر بھی چلا رہی ہوتی ہیں تو ان کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے اور ان کے کام کو بھی سراہنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ تو سونے پہ سہاگا ہوتی ہیں۔