قبائیلی اضلاع، اے ڈی آر کمیٹیاں خواتین کی نمائندگی سے کیوں محروم ہیں؟
رخسار جاوید
پاکستان میں جہاں خواتین کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنی پڑتی ہے وہی قبائیلی خواتین ذیادہ کسم پرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ قبائیلی خواتین کےحقوق کو اجگر کرنے کے حوالے سے آج پشاور پریس کلب میں “ شی دی پیس بلڈر” کے عنوان سے بننے والی شارٹ فلم کی رونمائی کی تقریب منعقد ہوئی۔
اس شارٹ فلم میں قبائیلی اضلاع میں امن کے قیام میں خواتین کے کردار کو اجاگر کرنے اور صوبہ خیبرپختونخوا میں الٹرنیٹ ڈسپیورٹ ریزولیوشن کے نام سے قانون متعارف کرایا جس میں سستے انصاف کی فراہمی کے لئے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں مگر ان کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کو دکھایا گیا ہے۔
خواتین کو اے ڈی آر کمیٹیوں میں نمائندگی کیوں نہیں دی گئی؟
اس سوال کے جواب میں صحافی و فلم میکر زینت بی بی کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی کا نمائندہ یا ممبر بننے کے لئے جو کرایٹیریا رکھا گیا ہے اس میں خواتین کی شراکت کے لئے کوئی شق مختص نہیں ہے۔ اے ڈی آر کا ممبر یا نمائندہ بیوروکریٹ، ریٹائرڈ جج انکا حصہ بن سکتے ہیں مگر خواتین کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔
فلم میکر زینت بی بی نے ٹی این این سے بات کرتے یوئے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کا جائیداد میں حصے سے لیکر خلع، گھریلو تشدد، سورہ، غگ، بچوں کی کسٹڈی جیسے دیگر مسائل ہیں جس میں متاثرہ خواتین کی شنوائی ہونی چاہیے لیکن قبائیلی جرگے میں خواتین نہ تو پیش ہوسکتی ہیں اور نہ ہی کوئی خاتون اس جرگے کا حصہ ہے جس کا مطلب ہے کہ آدھے معاشرے کو انصاف مہیا ہورہا ہے جبکہ معاشرے کا آدھا حصہ انصاف جیسے بنیادی حق سے محروم ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کے تحت بننے والی کمیٹیوں میں ملک، مقامی رہنما اور مذہبی لیڈرز کیلئے تو اپنا کوٹہ مخصوص ہے لیکن خواتین کیلئے کوئی بھی نشست مخصوص نہیں کی گئی ہے جبکہ خواتین کی کم شرح خواندگی کی وجہ سے ان کمیٹیوں میں خواتین وکیل، جج یا ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے طور پر شمولیت تاحال ایک خواب ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دیگر مقامی رہنماوں کی طرح مقامی خواتین کیلئے بھی ان کمیٹیوں میں کوٹہ مخصوص کرے تاکہ پائیدار امن کیلئے ان سرکاری جرگوں میں خواتین کی نمائندگی ہو اور خواتین سے جُڑے کئی مسائل ان کی مرضی کے مطابق حل ہوں۔
فلم رونمائی کی اس تقریب میں میڈیا نمائندوں سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ تقریب کی میزبانی فلم میکر زینت بی بی، قبائلی ضلع خیبر کے صحافی و سماجی کارکن راحت شنواری اور کمیونیکیشن اینڈ آوٹ ریچ سپیشلسٹ نوید یوسفزئی اور شعبہ قانون سے تعلق رکھنے والی خاتون سلوا جاوید نے کی۔
تقریب میں موجود شرکا نے اس بات کو سراہا کہ قبائیلی خواتین کے اس اہم مسئلے اور موضوع کو اجاگر کیا گیا ہے۔
تقریب میں شرکت کرنے والی خاتون صدف کا کہنا تھا کہ جہاں خواتین کو اپنی نمائندگی کا حق نہ دیا جائے تو وہ کس طرح ملک و قوم کا فعال حصہ بن سکتی ہے، اور اگر خواتین ان کمیٹیوں کی نمائندگی کرے گی تو قبائیلی اضلاع کی خواتین اپنے اپنے مسائل آسانی سے رپورٹ کرے گی۔
اس طرح ان کو اپنا موقف اور مسائل بتانے کا حوصلہ ملے گا کیونکہ خواتین دوسری خواتین کو آسانی سے اپنا مسئلہ بیان کر سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ یہ فلم سرچ فار کامن گراونڈ اور عورت فاونڈیشن کے باہمی اشتراک سے ایک سالہ ویمن پیس آرکیٹیکٹ کے ٹریننگ کے اختتام پر شوٹ کی گئی ہے جس میں قبائلی اضلاع میں امن کے قیام میں خواتین کے کردار کی اہمیت اُجاگر کیا گیا ہے۔